• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں آج جو بھوک و بیماری ہے، اس میں جہاں فوجی آمروں کا حصہ ہے وہاں پیپلز پارٹی و مسلم لیگ (ن) کا حصہ بھی ان سے کم نہیں ۔ اس کے باوجود عوام جہاں پوری فراخدلی سے ان دو جماعتوں کو ووٹ دینے کے لئے ہمہ وقت تیار و بے قرار رہتے ہیں، اسی طرح فوجی حکومتوں کو بھی خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی سر شاری قابلِ دید ہوتی ہے۔ نہ جانے اس قومی طرز عمل کو کیا نام دیا جائے! البتہ ان سے استفسار کیا جاسکتاہے کہ جو کہتے ہیں کہ پاکستان مذہب کے نام پر بنا ہے کہ اس روگ لگی بیماری کا حل کیا ہے ؟ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا حل خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔ بالکل ہے، لیکن آدھا ملک ہندو بنیا کے ہاتھ گنوانے اور سات عشرے غربت میں بیتانے پر بھی آخر آپ خلافت راشدہ کے اہل کیوں نہیں ہوسکے ؟ ظاہر ہے کہ خلافت راشدہ کے نظام میں تو کوئی ٹیڑھ نہیں،پھر کہیں دال میں کالا تو ضرور ہے...!
ہاں ہم جیسےخواب پرست، جو انقلابی ترانوں پر رقصاں ہوتے کسی قلندر کے مسکان ہوئے، یا جو جمہوریت کی راگنی پر زلف پریشاں ہوئے، بے خودی سے خودی کے سفر پر لوٹتے ٹوٹتے البتہ بقول استاد غالب یہ دہائی دیتے رہتے ہیں۔
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دو ا پایا
اساتذہ کہتےہیںفی زمانہ جمہوریت ہی بہترین بندوبست ہے۔ اس سے انکار بھی نہیں ،کہنا مگر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں اس بندوبست کے دعویدار سیاستدان اگر جو کہتےہیں اس پر عمل پیرا ہوتےتو پھر کیاآج اِس اسلامی جمہوریہ میں مسرتوں وشاد کامیوںکے چشمے نہ اُبلتے،اور عیش وآفرین کے غلغلے بلند نہ ہوتے!مگر اے چارہ گر... کہ وطن عزیز میں جمہور کا نقشہ بقول ناصر کاظمی جو ہےوہ تو یہ ہے۔
اک پائوں میں پھول سی جوتی
اک پائوں سارا ننگا ہے
جو ارباب فکر و نظر کہتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں ساٹھ ستر برس زیادہ عمر نہیں ہوتی، ان سے بصدِ احترام اختلاف کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کے خواستگار ہیں کہ ہم نے قوموں کی اِسی مختصر زندگی میں مملکت خداداد پاکستان کو دو لخت ہوتے دیکھا،اور تباہ حال جرمن و جاپان سے لے کر کوریا، ملائیشیا تک کو سطح بلندی سے بہرہ مند، یہاں تک کہ بدوئوں نے ریگستان و نخلستان کو گلستان بنا دیا۔ یہ ممالک اگر ساٹھ ستر سال یوں ہماری طرح ’’پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے یا نہیں‘‘ کے موضوعِ سخن کے گرد بھنگڑا پاتے گزارتے، تو کیا آج ناگاہ انہیں شاہراہ ترقی پر سفر کا راستہ ملتا!
جناب عالی! اخباری تراشے جمع کرتے، کنویں کے مینڈک،ان خود ساختہ مورخین کے من گھڑت جھوٹ اگر یونہی از بر کرائے جاتے رہے تو لکھ کر رکھ لیں کہ خدانخواستہ۔
ہوائے ظلم یہی ہے تو دیکھنا ایک دن
زمین پانی کو سورج کرن کو ترسے گا
دوسری طرف قوم نے جن سیاستدانوں کو اپنا والی وارث بنایاہے اسی بنا ان سے یہ استدعا ہے کہ آپ نے اپنا خیال بہت رکھ لیا، بلکہ جتنا’ رکھ‘ لیا ہے وہ آپ اور آپ کے شہزادے اور شہزادیاں ختم نہیں کرسکتے، لہٰذا براہ کرم اب ان عوام کی طرف بھی کچھ نظرِ التفات کیجیے جو قومی خزانے کی امانت آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں کہ مسلم لیگ و پیپلز پارٹی اس قابل ہیںکہ وہ ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے ایک فلاحی جمہوری مملکت میں تبدیل کرسکیں، تاہم اس حوالے سے اخلاص شرط ائول ہے۔حالیہ برسوں میں اس حوالے سے بعض شواہد یقیناً حوصلہ افزا ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کو کس قدر پابند رکھا گیا، بے شمار ان کہی کہانیاں ہیں۔ اگر پیپلز پارٹی اس نزاع کے عالم میں رہی سہی توانائیاں لوٹ مار پر صرف کرنے کی بجائے عوامی داد رسی کے لئے وقف کرتی، تو بلاشبہ یہ پیٹ و پیٹھ کی جنگ سے زیادہ جمہوری و عوامی حقوق کا معرکہ کہلاتا۔ آج اسی طرح کی صورت حال مسلم لیگ (ن) کو در پیش ہے۔ اگرچہ اساتذہ، تبدیلی کا مژدہ بھی سناتے ہیں، لیکن یہ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مسلم لیگی حکومت بقول حضرت منیر نیازی گویا جیسے تھی کہ نہ تھی ۔
میں ہوں بھی، اور نہیں بھی، عجیب بات ہے
یہ کیسا جبر ہے ،میں کس کے اختیار میں ہوں
کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگی حکومت کو آزمائش سے باہر نکالنے میں جہاں میاں نواز شریف صاحب کی استقامت کام آئی تو وہاں ایک بردارملک بھی پشتیبان بنا ۔ قصہ جو بھی ہو، حال کا واقعہ مگر یہ ہے کہ مسلم لیگی حکومت کو آج پانا ماکے ماسواکوئی بڑا چیلنج در پیش نہیں۔ خوش آئند امر یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سویلین بالادستی کیلئے یک جان ہیں۔ اگرچہ بظاہر دونوں جماعتوں میں محاذ آرائی بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے، لیکن واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ یہ نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا لیکن مشترکہ ہدف جمہوری سیٹ اپ کو استحکام سونپنا اور انفرادی اہداف آئندہ انتخابات کی تیاری ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی کمزوری سے پیدا ہونےوالے خلا کو جس طرح تحریک انصاف نے پُر کیا تھا، عین اب اسی طرح تحریک انصاف کی کم ہوتی مقبولیت کے ثمرات سمیٹنے کی خاطر آصف زرداری صاحب بنفسِ نفیس میدان کارزار میں آئے ہیں۔دونوں جماعتوں کا مشترکہ خفیہ ایجنڈا یہ ہے کہ ہر صورت میں تحریک انصاف کو مسابقتی دوڑ میں ہلکان کئے رکھنا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مملکت کے بہی خواہ جو تحریک انصاف کو کسی کی طفیلی گردانتے ہیں، وہ کرپشن کو ثانوی مسئلہ قرار دیتے ہوئے پی پی ن لیگ کی فعالیت کو درست ڈگر پر دیکھتے ہیں۔
اگر مگر کے اس بیچ منجدھار میں البتہ ہم طفلِ مکتب یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان میں زلفِ جمہوریت کے سر ہونے کیلئے جرات رندانہ درکار ہے ۔وہ ادائے بے باکانہ، جو تاریخ نے یا تو 35سال پس زنداں گزارنے والے باچا خان کی مستقیم صورت میں دیکھی ، یا جامِ شہادت نوش کرنے والی بے نظیر کی بے نظیر صورت میں، حضرت اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا۔
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری




.
تازہ ترین