• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس میں کوئی شک نہیں کہ منشیات سے حاصل ہونے والی رقوم مختلف وارداتوں میں استعمال ہو رہی ہیں۔ منشیات کی اکثریت افیون سے حاصل ہوتی ہے۔افیون کا مرکز افغانستان ہے۔تازہ خبروں کے مطابق افغانستان میں افیون کی پیداوار میں رواں سال 43فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ منشیات کے دھندے کے خلاف کارروائی کی کوششوں کی کھلی ناکامی کا ثبوت ہے۔2015ء کے مقابلے میں ہونے والا یہ سالانہ اضافہ پوست کی کاشت کی پیداوار میں10فیصد اضافے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔اقوام متحدہ کے مطابق ایک لاکھ 83 ہزار ہیکٹرز سے بڑھ کر 2 لاکھ ایک ہزار ہیکٹرز تک پہنچ گیا ہے۔
2016ء میں افیون کی پیداوار 4800 ٹن رہی۔ گزشتہ ایک دہائی میں افغانستان میں پوست کی کاشت میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ گویا 2016ء گزشتہ دہائیوں میں افیون کی پیداوار کا تیسرا سب سے بڑا سال بن چکا ہے۔ حکام کا کہنا ہے موزوں موسم، بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور بین الاقوامی امداد میں آنے والی کمی اس کاشت میں اضافے کا سبب بنی ہے جبکہ فی ہیکٹر افیون پیداوار میں اضافہ بھی ایک محرک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 93 فیصد کاشت جنوبی، مغربی اور مشرقی افغانستان میں ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے افغانستان افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔
افغان حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ سہولتیں، افرادی قوت اور آلات کے ساتھ وہ ان دور دراز علاقوں میں پوست کی پیداوار کو نہیں روک سکتے۔ گزشتہ دہائی میں افغانستان میں افیون کی پیداوار ختم کرنے کے لئے بظاہر اربوں ڈالرز خرچ کئے گئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ امداد خاتمے کے لئے نہیں بلکہ پیداوار بڑھانے کے لئے دی گئی ہے۔یاد رہے کہ افیون اور ہیروئن جیسی خطرناک منشیات پوست ہی سے بنتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 20 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ سب سے زیادہ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والی منشیات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ منشیات کے سب سے زیادہ عادی افراد براعظم ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ ورلڈ ڈرگ رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ 16 کروڑ 24 لاکھ افراد نے بھنگ اور اس سے تیار شدہ منشیات کا استعمال کیا۔ دوسرے نمبر پر ایک کروڑ 36 لاکھ افراد نے کوکین۔
تیسرے نمبر پر 2 کروڑ 49 لاکھ نے ایم فیٹا مائنز۔ ایک کروڑ 58 لاکھ نے افیون۔ ایک کروڑ 2 لاکھ 50 ہزار نے ہیروئن کا نشہ کیا۔ یوں دنیا کے 15 سے 64 سال عمر کے افراد میں سے 3.9 فیصد بھنگ۔ 0.4 فیصد افیون جبکہ الگ الگ 0.3 فیصد کوکین اور ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ مجموعی طورپر دنیا میں 15 سے 64 سال کے 4.9 فیصد افراد نشہ کے عادی ہیں۔ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والی منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکہ میں کیا جاتا ہے جہاں 15 سے 64 سال کے 6.2 فیصد افراد اس کا نشہ کرتے ہیں۔ تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ ایشیائی باشندے 5 کروڑ 21لاکھ بھنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ کوکین کا سب سے زیادہ استعمال آبادی اور تعداد دونوں حوالوں سے براعظم امریکہ میں کیا جاتا ہے۔ جہاں 84 لاکھ 40 ہزار افراد کو کین کا نشہ کرتے ہیں۔ افیون کا استعمال آبادی کے تناسب سے 0.4 براعظم امریکہ اور تعداد کے حوالے سے 85 لاکھ 30 ہزار ایشیائی کرتے ہیں۔ ہیروئن کے استعمال میں بھی تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے جہاں 54 لاکھ سے زائد افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں۔ 15 سے 64 سال کے افراد کی آبادی کے حوالے سے سب سے زیادہ 0.6 فیصد یورپی افراد ہیروئن کے عادی ہیں۔جنوبی کوریا کے شعبہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کوریا کی معیشت کو صرف شراب نوشی سے سالانہ 22 ارب ڈالر کے نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ جن میں شراب نوشی سے ہونے والی بیماریوں کے علاج کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ 2001ء میں جنوبی کوریا میں 22 ہزار افراد ان بیماریوں سے ہلاک ہوئے جو صرف شراب نوشی سے لگتی ہیں۔ شراب نوشی سے فیکٹریوں اور کارخانوں میں نہ صرف کام متاثر ہوتا ہے بلکہ بڑے بڑے حادثات بھی رونما ہوتے ہیں جو جانی ومالی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75فیصد لوگ ذہنی دبائو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنےکے لئے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دنیا خصوصاً یورپ کی بلیک مارکیٹوں پر ایسے افراد کا قبضہ ہے جن کا اثرورسوخ حکومتی سطح تک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں انسدادِ منشیات کی فورسز ہونے کے باوجود یہ زہریلی وبا دن بدن پھیلتی چلی جارہی ہے۔ دنیا بھر کی منشیات کی تقریباً 80 فیصد پیداوار افغانستان سے حاصل کی جاتی ہے جہاں طالبان کے حکومت کے خاتمے کے بعد افیون کی فصل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ انسدادِ منشیات کے کئی اداروں کے سربراہ یہ بات پہلے ہی کہہ چکے ہیں طالبان کی حکومت کے دوران دنیا بھر میں منشیات کی پیداوار میں خاصی کمی آگئی تھی اور یہ یقین ہوچلا تھا کہ چند ہی سالوں کے اقدامات سے منشیات کا تقریباً خاتمہ ہوجائے گا، لیکن افغانستان میں غیر ملکی افواج کی آمد کے بعد پھر افغانستان افیون کی عالمی منڈی بن گیاہے۔




.
تازہ ترین