• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم کی کامیابی کے آثار نظر آتے ہی امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی سربراہی میں دنیا کو ایک بریسٹن وڈ سسٹم کے تحت سرمایہ دارانہ نظام دیا جس کی لائف لائن فری مارکیٹ اکانومی کو سمجھا جاتا ہے جولائی 1944میں قائم ہونے والے اس گلوبل اکنامک سسٹم کو امریکی سیاسی اور معاشی تجربہ کاروں نے دنیا کو درپیش معاشی مسائل کا واحد حل قرار دیا۔ سوویت یونین نے اس کے مقابلے میں کیمونزم کا نظام متعارف کروایا جو کہ فری ٹریڈ یا فری مارکیٹ اکانومی کی نفی کرتا ہے۔ امریکہ اور روس کے مابین اپنے اپنے نظام کے دفاع کی آڑ میں سرد جنگ شروع ہوئی جس کا خاتمہ دسمبر 1991ءمیں سوویت یونین کی شکست کی صورت میں ہوا۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج سینئر بش نے سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد جس گلوبل آرڈر کا خاکہ پیش کیا اس کی آبیاری جمہوریت کے پھیلائو اور فری ٹریڈ کے ساتھ مشروط کر دی گئی۔ آج تقریباً 25 سالوں کے بعد وہی امریکہ اور اسکے اتحادی جن میں برطانیہ سرفہرست ہے عالمگیریت کی جڑیں کھوکھلی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ترقی یافتہ ممالک ترقی پذیر ممالک کو یہ سبق پڑھائیں گے کہ ترقی یافتہ ملک کے مفادات کا تحفظ ہی گلوبلائزیشن ہے۔ اس سبق کی ابتدا امریکہ میں ہوگی نئے منتخب امریکی صدر چین کے ساتھ بڑھتے تجارتی تعلقات پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ ماننا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ امریکہ کے مفاد میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ تحفظات بلاسبب نہیں 2015میں چین کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ 365.7بلین امریکی ڈالر تھا۔وہ سلک روٹ جو چین وسطی ایشیا، مشرقی وسطیٰ اور یورپ کے مابین تجارت کا ذریعہ بنی آج چینی حکومت اپنے چینی انجینئرز کی مدد سے اس روٹ کا جال ’’ون بلٹ ون روڈ‘‘ کے ذریعے 65 ممالک کے ساتھ بذریعہ زمین تجارتی تعلقات مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ جہاں تقریباً دنیا کی 60 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے چین کی ’’نئی سلک روٹ‘‘ کا ایک اہم سنگ میل برطانیہ کے شہر لندن تک ریل کی پٹڑیوں کا جال بچھانا ہے۔ پٹڑیوں کا یہ جال تقریباً 7500 میل پر مبنی ہوگا۔ 7500میل کا یہ سفر 16دنوں میں طے ہوگا۔ اس کے علاوہ ریل گاڑی کا یہ نیٹ ورک جرمنی کے شہر ہمبرگ اور سپین کے شہر میڈرڈ کو بھی اپنی گرفت میںلے لے گا۔ چین کے یورپ کیساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی مراسم مشرقی ایشیا کے ممالک جن میں جاپان اور جنوبی کوریا اہم حیثیت رکھتے ہیں ان پر سے چین کا تجارتی انحصار بھی کم ہو سکے گا۔ دوسری طرف جرمنی جو کہ نہ صرف یورپی یونین کا ایک اہم ترین رکن ہے بلکہ یورپ کی مضبوط ترین معیشت کا ایندھن بھی ہے۔ایک سروے کے مطابق 1999 سے 2015 تک برطانیہ میں یورپ کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے افراد نے برطانیہ کے سرکاری خزانے کو تقریباً 35بلین امریکی ڈالر کا فائدہ پہنچایا۔ برطانیہ کی حکومت ڈنمارک کی حکومت کا ماڈل فالو کرکے امیگرینٹس کے مسائل پر قابو پا سکتی تھی۔ ڈنمارک کی حکومت نے اپنے ملک میں قائم لوکل حکومتوں کو یورپ کے دیگر ممالک سے آئے ہوئے افراد کی صحت، تعلیم اور رہائش مہیا کرنے کا ذمہ سونپ دیا ہے وہاں کی لوکل حکومتیں ان مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے اچھا خاصا ریونیو حاصل کرلیتی ہیں۔ گلوبلائزیشن کی مخالف قوتوں کا یہ ماننا ہے کہ اسکے ثمرات صرف طاقت ور ترین ملٹی نیشنل کمپینز اور مغربی ممالک کے امیر ترین طبقے کو پہنچ رہے ہیں۔ گلوبلائزیشن کی آڑ میں گلوبل نارتھ گلوبل سائوتھ کا استحصال کر رہا ہے جبکہ اس کے حامیوں کا یہ کہنا ہے کہ فری ٹریڈ کی بدولت لوگوں کا طرز زندگی بہت بہتر ہوا ہے ان کا مزید کہنا ہے کہ چین اور بھارت میں موجود کروڑوں لوگ جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے فری مارکیٹ اکانومی کی بدولت اب غربت کی لکیر سے اوپر زندگی گزار رہے ہیں۔
دنیا کے چالیس ممالک میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق اگر ان ممالک میں فری ٹریڈ ختم کردی جائے تو ان چالیس ممالک میں موجود 28فیصد امیر طبقے کی قوت خرید متاثر ہوگی بلکہ 63فیصد غریب افراد کی قوت خرید میں کمی آ جائے گی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی بھی نظام پرفیکٹ نہیں ہوتا۔اس نظام کے بچائو کی ذمہ داری سب سے زیادہ امریکہ اور یورپی ممالک پر ہی آتی ہے۔ چین اگر آج دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے تو وہ بھی اس نظام کی ہی بدولت ممکن ہوا ہے۔ امریکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کے بجائے ایسی معاشی پالیسی مرتب کرکے آنے والے دور میں دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی شرح کو کم از کم روکا جاسکے۔ امریکہ کے لئے اب یہ ممکن نہیں کہ تمام معاشی فوائد اکیلا ہضم کرلے کیوں کہ دنیا اب ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔

.
تازہ ترین