پاناماپیپرز کیس میںسپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ آرٹیکل 62 ، 63 لگایا تو پارلیمنٹ میں سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا، اسی لیے مقدمے کو سن رہےہیں کہ کہیں سب کو نہ لے ڈوبے۔ اس معاملے میں جج خود بھی تحقیق کررہےہیں،شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ کے روبرو پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
دوران سماعت جسٹس عظمت سعید شیخ نےعمران خان کے وکیل سے کہا کہ بخاری صاحب آپ سے 16 سوالات پوچھے ہیں ان میں سے ایک کا جواب نہیں دیا، آپ پانی میں مچھلیاں پکڑ رہے یا کچھ اورہے؟
جسٹس آصف کھوسہ نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ آپ کو کیس ختم کرنے کی جلدی کیا ہے؟عدالت جب تک مطمئن نہیں ہو گی تب تک ہم آپ کو جانے نہیں دیں گے۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہاکہ شریف خاندان نے آف شور کمپنیوں کا 1993 سے لنک کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ، شریف خاندان نے آف شور کمپنیا ں 2006 سے تسلیم کی ہیں۔
نعیم بخاری نے دلائل دیے کہ بینک ٹرانزیکشنز کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا ۔
جسٹس اعجازالحسن نے ریمارکس دیے کہ جائیدادیں اگر قطریوں کی تھیں تو منی ٹریل شریف خاندان کیسے دے سکتا ہے؟
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اگر جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ تمام کاروبار میاں شریف کرتے تھے تو کیا اب ان کے بچوں کی ذمہ داری ہے کہ منی ٹریل دیں؟
نعیم بخاری نے کہا کہ بڑے میاں صاحب کے پاس قطر کے لئے سرمایہ تھا ہی نہیں۔
جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف نے پیسہ باہر بھجوایا؟
دوران سماعت ایک موقع پرجسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ 34 ملین کا قرض کیسے ادا ہوا؟ یہ دوسرے فریق کو بتانے دیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ شریف خاندان کے بزنس منیجر نے کہا ہے کہ تمام مالیاتی ریکارڈ وکلا کو دے دیا ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ یہ بھی کہاگیا ہے ہم نے وکلا کو ریکارڈ فراہم کیا ہے، اب ان کی مرضی ہے کہ وہ کیسے استعمال کرتے ہیں؟
جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہونے کی بات حسین نواز نے بھی کی۔
بعد ازاں سپریم کور ٹ میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ۔مقدمے میں نعیم بخاری کے دلائل کل بھی جاری رہیں گے۔