• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت نامہ، انتخابی سرگرمیوں کا سال قدرے پہلےشروع

اسلام آباد (محمد صالح ظافر،خصوصی تجزیہ نگار) قبل از موسم کی بارشوں کی طرح ملک میں انتخابی سرگرمیوں کا سال بھی قدرے پہلے شروع ہوگیاہے عدالت عظمیٰ میں ان درخواستوں کی شنوائی جنہیں اس قابل تعظیم عدالت نے ماہ قبل لغو قرار دیا اور یہ ناقابل سماعت ٹھہریں۔ دو نومبر کو وفاقی دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنے کا احمقانہ اعلان، اس کے بعد جماعت اسلامی کی احتجاجی تحریک، ایم کیوایم کی سرگرمیوں میں اضافہ اور پیپلزپارٹی کی باسی کڑھی میں ابال یہ سب کچھ انتخابی سرگرمیوں کا بظاہر حصہ ہیں۔ تحریک انصاف سمیت تمام درخواست دہندگان کو بخوبی علم تھا کہ وہ جس سوال کو شاہراہ آئین اسلام آباد میں کتاب اور ترازو کی عمارت میں اٹھانے جارہے ہیں اس کا انہیں حوصلہ افزا جواب نہیں ملےگا اس کا سبب لازمی شواہد کی عدم دستیابی تھی اس تمام تر کےباوجود سیاسی لال بجھکڑوں کی فوج ظفر موج ہے جو منہ اٹھائے شاہراہ آئین کی عمارت کے روبرو کیمروں کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔ وہ اسی امید پر زندہ ہیں کہ کسی لمحے نواز شریف وزارت عظمیٰ سے کنارہ کش ہوجائیں اور یہ لوگ صریر آرائے اقتدار ہوجائیں ان پر یہ حقیقت بتدریج آشکارا ہونا شروع ہوگئی ہے کہ انہوں نے جس جال کو بنا تھا وہ استعمال سے پہلے ہی ناکارہ ہوگیاہے حکمران پاکستان مسلم لیگ نون ان سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کے علی الرغم فی الوقت کسی انتخابی مہم میں حصہ دار بننے کی خواہاں نہیں ہے اور نہ ہی اس نے وہ مشق شروع کی ہے جو انتخابات سے ایک سال قبل لازماً منظر عام پر آجاناچاہئے تھی۔ وزیراعظم نواز شریف ایک مطمئن سیاسی رہنما کی طرح اپنی ترقیاتی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے جارہے ہیں۔ ان کا مو ازنہ ان چہروں سے کیا جاسکتاہے جو ہر روز رونمائی کے لئے عدالت عظمیٰ میں داخل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک سے یہ دریافت کیا جانا چاہئے کہ وہ اس قدر باقاعدگی کے ساتھ ایسی عدالتی کارروائی سے کیااخذ کرنا چاہتے جو عام درجے کی سوجھ بوجھ بھی نہیں رکھتے محض چرب زبان ہونا سیاسی رہنما بننے کے لئے کافی نہیں ہوتا عدالت عظمیٰ میں دائر مقدمے کے حو الے سے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ بے کار افراد نے شغل ڈھونڈا تھا کہ وہ اس کی آڑ میں حکومت اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کے اپنے شوق کی اس سے تسکین کا سامان کرینگے بدقسمتی سے اس پوری روداد کے دروان وہ جملے اور الزامات انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت تھے جو عائد تو کردیئے گئے لیکن ان کےبارے میں سرے سے ان کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں تھا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران وزیراعظم نواز شریف کی سرگرمیوں کا تقابل تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور یک رکنی پارٹیوں کے رہنمائوں کی گفتگو سے کیا جائے تو یہ تخمینہ لگانے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی کہ ایک طرف ملکی بھلائی کے منصوبوں کی بات ہورہی ہے تو فریق ثانی ایسے منصوبہ سازوں کے خلاف لگاتار دشنام طراز ی کررہے ہیں۔ وہ اس امر کا چنداں خیال نہیں رکھتے کہ اس سے مجموعی قومی ماحول پر کس قدر منفی اور مایوس کن اثرات مرتب ہورہے ہیں چند ہفتوں بعد جب قرار واقعی طور پر انتخابی مہم شروع ہوگی تو سیاسی جماعتوں اورا ن کارکنوں میں آویزش کس درجے پر پہنچ جائے گی ابھی سے ریلیاں، لانگ مارچ، دھرنے اور احتجاج کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ انتخابی جلسوں کی بات تو کسی حد تک سمجھ میں آجاتی ہے یہ تقریباً طے ہے کہ پیش آمدہ انتخابات کے لئے ہونےو الی مہم پر امن نہیں رہ سکے گی یک رکنی پارٹی کے سربراہ ایک سے زیادہ مرتبہ ملک میں خانہ جنگی کی باتیں کرچکے ہیں انہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ خانہ جنگی  جن ممالک یا معاشروں کو درپے ہوجاتی ہیں وہاں انسانی زندگی کس طور پر ارزاں ہوجاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں بہتری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں تیزی سے ترقی کی رفتار حاصل کرنے اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ جانے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ملک کو درپیش چیلنج بدستور موجود ہیں دوسروں کو برا بھلا کہنے اور اپنے دامن میں جھانکنے سے گریز ایسا وتیرہ ہے جو کامیابی و کامرانی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ بڑے سیاسی عمائدین ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک جگہ بیٹھ کر لائحہ عمل مرتب کریں کہ تصادم اور تنازعے کے امکانات کو کیونکر رو کا جاسکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ میں دائر درخواستیں ہفتے عشرے میں اپنے انجام کو پہنچ جائیں گی اس کے بعد ابھرنے والے منظر کے لئے بعض عاقبت نا اندیشوں نے جس طور کے عزائم پال رکھے ہیں اور منصوبے وضع کر رکھے ہیں ان کی روک تھام کے لئے ٹھوس تدابیر درکار ہونگی۔  
تازہ ترین