• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ستمبر 1939۔ پولینڈ کے صدر مقام وارسا کا ریڈیو اسٹیشن۔ روماں پولانسکی کی فلم ’’پیانو بجانے والا‘‘کا پہلا منظر ہے۔ آدریان بروڈی کی انگلیاں رقص کرنے والے کے پیروں کی طرح ساز پر تھرکتی نظر آتی ہیں۔ اسٹوڈیو میں پیانو کے دھیمے سر ایسے بکھر رہے ہیں کہ فیض کے لفظوں میں ’’جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات‘‘۔ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آتی ہے پھر ایک اور بم کی چیخ کہیں قریب ہی سنائی دیتی ہے۔ ساتھ والے کمرے میں پروڈیوسر ہیجانی انداز میں اشارے کرتا ہے اور سارا منظر شیشے کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں، دھوئیں اور چیخوں میں ڈوب جاتا ہے۔ آج ہم نے اپنا دل خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا۔۔۔ پیانو کے آخری سر دہشت کی وحشت میں گم ہوجاتے ہیں۔
بدھ کے روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی ایوان بالا سے مخاطب ہوئے۔ حسن یوسف، لحن داؤدی اور جلوس سلیمان کے سب زاویے خدا نے خطہ پوٹھوہار کے اس فرزند کو بخش رکھے ہیں۔ جلال پادشاہی کا وفور ہو تو دائیں بائیں شمشیر کے جوہر دکھاتے نکل جاتے ہیں۔ پیچھے اپنے کشتوں کے لاشے اور سمند ناز کی دھول چھوڑ جاتے ہیں۔ دلوں کا غبار بصارت کو دھندلا دیتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والوں کی جان آزادی اور سلامتی کے ذمہ دار وفاقی وزیر نے لولوئے لالا ارزاں کئے اور فرمایا کہ فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گردی میں فرق کرنا چاہئے۔ تیری آواز مکے اور مدینے… ڈاکٹر عاصم نام کا ایک بوڑھا قریب دو برس سے زنداں میں ہے۔ اس پر دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام تھا۔ جسے حرف حق کا دعویٰ ہو، وہ آواز دے کر دریافت کرے کہ ڈاکٹر عاصم سے فیض اٹھانے والے فرقہ پرست تھے یا محض دہشت گرد۔ ایک ضمنی بات یہ کہ ایوان بالا میں ان چار بدنصیبوں کا ذکر بھی آیا تھا جنہیں لاپتہ ہوئے ایک ہفتہ ہونے کو آیا۔ وزیرداخلہ نے مہربانی کی ہے اور امید دلائی ہے کہ یہ بچھڑے جلد ہی اپنوں سے آن ملیں گے۔ گویا یہ تو طے ہوگیا کہ کسی جرائم پیشہ گروہ کی کارروائی نہیں ہے، بات گویا یہیں کہیں کی ہے… یہ تاثر بہر صورت موجود ہے کہ پاکستان کے شہریوں کی گمشدگی پر وزیر داخلہ کے لب و لہجے میں وہ اضطراب نظر نہیں آیا جو کسی شہری کی آزادی میں خلل آنے پہ ایک ذمہ دار حاکم کو زیب دیتا ہے۔ اس دوران محترم وزیر داخلہ نے اپنے طلسم کدے کا اگلا سوال ہم بے ہنروں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ فرمایا کہ فرقہ وارانہ تنظیموں کو دہشت گردوں سے خلط ملط کرنا درست نہیں ہے۔ بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو… تین نکات اس سے برآمد ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ فرقہ پرست تنظیمیں کیا ہوتی ہیں۔ آئین میں عقیدے کی آزادی، تنظیم سازی، اجتماع اور تقریر و تحریر کے جو حقوق دئیے گئے ہیں انہیں فرقہ وارانہ تقویم میں کیسے سمویا جائے گا۔ دوسرا سوال یہ کہ دہشت گردی کسے کہتے ہیں؟ اور تیسرا یہ کہ دہشت گردی اور فرقہ واریت میں ربط اور التزام کے کوئی شواہد موجود ہیں یا نہیں۔
ہر شہری عقیدے کا حق رکھتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی تشخص کے علاوہ عقیدے کی بنیاد پر دوسرے شہریوں کے ساتھ رابطے اور مکالمے کا حق بھی اس آزادی کا حصہ ہے۔ مشکل وہاں پیش آتی ہے جب عقیدے کی بنیاد پر کوئی فرد یا گروہ یہ موقف اختیار کر لے کہ اسے کسی دوسرے عقیدے، فرقے یا مسلک کے ساتھ عناد ہے اور وہ اپنے نامزد گروہوں کے خلاف رائے کو فعل میں بدلنا چاہتا ہے۔ جب وہ عقائد کو عوامی سطح پر زیر بحث لانا چاہتا ہے، ممکنہ اشتعال کو ایک دھمکی کی صورت دینا چاہتا ہے اور تاثر پذیر ذہنوں کو عقیدے کے نام پر تشدد پر اکسانا چاہتا ہے۔ یہ وہ حد ہے جہاں ایک جائز مذہبی جماعت ایک فرقہ وارانہ تنظیم میں ڈھل جاتی ہے۔ ایسی کسی تنظیم کے مالی وسائل، بین الاقوامی روابط اور پر تشدد کارروائیوں کے بارے میں کسی بھی پولیس افسر سے دریافت کر لیجئے۔ صحافی غریب تو بے خبر ہوتا ہے۔ زیادہ نہیں تو یہی پوچھ لیجئے کہ 3 جنوری 1999 کو لاہور کے نواح میں وزیراعظم نواز شریف کے قافلے پر حملہ کس نے کیا تھا۔ اگر رائے ونڈ بم حملے کی بات بہت پرانی قرار پائے تو یہ بتا دیا جائے کہ 10 اکتوبر 2009 کو راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر حملے کے دوران ہونے والے مذاکرات میں کوئی فرقہ وارانہ رہنما تو شامل نہیں تھا۔ اچھا جانے دیں، آپ نہایت بھلے آدمی ہیں۔ کو ئٹہ میں شہریوں پر پے در پے حملوں کی ذمہ داری جس تنظیم نے قبول کی، اسے فرقہ وارانہ سمجھا جائے یا دہشت گرد؟ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ دسمبر 2014 میں جب نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا جارہا تھا تو فرقہ وارانہ تنظیموں اور دہشت گردی میں فرق کی صراحت کیوں نہیں کی گئی۔ ایک سوال یہ بھی پوچھنا چاہئے کہ نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کی تعریف پر کون سے عناصر مسلسل بے چین رہے ہیں۔ کون ہے جو اپنے مخالفوں پر دہشت گردی کا الزام لگانے پر ایک لمحے کی ہچکچاہٹ نہیں کرتا لیکن دہشت گردی پر انگلی اٹھتے ہی دہائی دیتا ہے کہ دہشت گردی کی تعریف متعین کی جائے۔
کسی کی ذات پر حملہ مقصود نہیں تاہم سمجھنا چاہئے کہ 2017 میں پاکستان کے خدوخال چار بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت سے جنم لینے والا جمہوری تجربہ دس برس مکمل کر کے بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دوم یہ کہ ہمارے خطے میں اور دنیا بھر میں سیاسی اور معاشی قوتوں کی نئی صف بندی ہورہی ہے۔ سوم یہ کہ پاکستان میں قومی سلامتی کا وہ بیانیہ غیر محسوس طریقے سے بدل رہا ہے جس میں ایک مخصوص سیاسی سوچ اور ریاستی اداروں کو غیرعلانیہ حلیف سمجھا جاتا تھا۔ چہارم یہ کہ ذرائع ابلاغ کے انقلاب کے ذریعے ریاست اور شہری کے رشتے میں بنیادی تبدیلیاں نمودار ہورہی ہیں۔ محترم چوہدری نثار علی خان 1990 کی سیاسی سوچ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ چوہدری صاحب 1985 سے ہماری قومی قیادت کا حصہ ہیں۔ ان تین عشروں میں جو اچھا برا ہوا، اس کی ذمہ داری ایک طرف، ہمیں تو چوہدری صاحب سے صرف یہ درخواست کرنا ہے کہ وہ گزشتہ صدی والی دھن تبدیل کریں۔ بانسری کی وہ دھن نیرو تب بجایا کرتا تھا جب روم جل رہا تھا۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ موسیقی کی دھن میں دہشت کا دھماکہ تباہی کا پیغام لاتا ہے۔ فرقہ پرستی ناگزیر طور پر دہشت گردی کی صورت اختیار کرتی ہے۔ دہشت گردی ہمارے لئے اثاثہ نہیں، ایک بوجھ ہے۔ ہم اس بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آدریان بروڈی کو آئین، قانون اور شہری آزادیوں کا پیانو بجانے کی اجازت دی جائے۔



.
تازہ ترین