اسلام آباد(ایجنسیاں)وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے‘ دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے تیزترین عدالتی نظام لائیں گے‘وزارت داخلہ نے کوئٹہ کمیشن کے حوالہ سے اپنا جواب اور موقف تیار کر لیا ہے، وزارت داخلہ سپریم کورٹ میں 17 یا 18 جنوری کو اپنا جواب دے گی‘نیوز لیکس کمیٹی سے میرا تعلق نہیں،رپورٹ تقریباًتیارہے جوکمیٹی آئندہ چند دنوں میںحکومت کو پیش کریگی‘ پیپلز پارٹی کے بہتانوں کی کوئی وقعت نہیں اور نہ ہی جواب دینا مناسب ہے‘ان کے پاس سینیٹ میں میری تقریر کا کوئی جواب نہیں تھا اسی لئے انہوں نے بھاگنے میں عافیت جانی، ان کے چند لوگوں کا رونادھونا جاری رہتاہے‘انہیں مجھ سے مسئلہ ہے‘وہ ہرالزام مجھ پر لگاتے ہیں‘پی پی کو مجھ سے کیا تکلیف ہےسب جانتے ہیں‘ دہشت گردوں اورفرقہ پرستوں کیلئے الگ الگ قوانین بناناہوں گے‘ملک میں دہشت گرد تنظیموں کی گنجائش نہیں‘ میڈیا مخالفین کی زبان نہ بولے‘ اسلام آباد سے پروفیسر حیدر کے علاوہ کسی اور کے لاپتہ ہونے کی اطلاع نہیں، لاپتہ افرادکو جلدبازیاب کرایا جائے گا‘ جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کی منسوخی کامعاملہ ایک مشکل کام ہے ، مگر چھتے میں ہاتھ ڈالا ہے تو اسے منطقی انجام تک پہنچا کر دم لوں گا‘ہرچیزکو مولانالدھیانوی سے جوڑنا مناسب نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کو یہاں کلر سیداں میں نومنتخب بلدیاتی نمائندوں سے ملاقات کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو مجھ سے کیا تکلیف ہے اس سے میڈیا اور تمام لوگ باخبر ہیں، میڈیا کی جائز تنقید اپنی جگہ لیکن بے جا تنقید ناانصافی اور پیشہ وارانہ بددیانتی ہے‘انہوں نے کہا کہ میں نےسینیٹ میں اپنی تقریر میں کسی عسکریت پسند یا کالعدم تنظیم یا فرد کو رعایت نہیں دی‘ کچھ لوگوں نے اپنے مطلب نکال لئے‘وزیر داخلہ نے کہاکہ ہر چیز کو مولانا لدھیانوی سے جوڑنا مناسب نہیں اورنہ ہی علامہ ساجد نقوی یا حامد موسوی جیسی شخصیات کو خوانخواستہ کسی دہشتگرد تنظیم سے جوڑا جا سکتا ہے تاہم انکی تنظیمیں کالعدم قرار دی گئی ہیں ، اس لئے دہشتگردی اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہوناچاہئے اور ان کیلئے علیحدہ قوانین بنانے ہونگے‘ اس میں کونسی غلط بات ہے ‘ اگر کوئی اندھا یا گونگا بن کر بیٹھ جائے تو کیا ہو سکتا ہے ‘وزیرداخلہ نے کہاکہ تصاویر ریکارڈ پر ہیں کہ کون کو ن سا سیاسی جماعت کا سربراہ کس کس کالعدم تنظیم کے سربراہ سے نہیں ملا‘ انہوں نے کہاکہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے ایک اجلاس ہوا ہے ، حکومت کی سطح پر بھی اور اپوزیشن بھی سوچ بچار کر رہی ہے اور ان سے بھی تجاویز مانگی گئی ہیں ‘آئندہ چند دنوں میں صورت حال واضح ہوجائیگی‘لاپتہ افراد کے حوالے سے حکومت کی پالیسی بالکل واضح ہے، پروفیسر حیدر کے علاوہ اسلام آباد سے کسی کے لاپتہ ہونے کی اطلاع نہیں تاہم لاہور سے اطلاعات ہیں ‘امید ہے کہ لاپتہ افراد بہت جلد بازیاب ہونگے‘ لواحقین صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں ‘ہماری کوشش ہوگی کہ تمام لوگ جلد بازیاب ہوں‘ وزیر داخلہ نے کہاکہ وہ ذاتی طور پر روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کررہے ہیں ، ساڑھے 3سال میں نے سر نیچے کر کے داخلی سلامتی کے ایشوز پر کام کیا اور اسکا کریڈٹ نہیں لیا ہے لیکن بعض سیاسی عناصر ہر چیز کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں ۔ ہمارے وکیل نے مشورہ دیا ہے کہ یہ اچھا موقع ہے کہ وزارت داخلہ کی داخلی سکیورٹی ، دہشتگردی کیخلاف جنگ کے حوالے سے جو طریقہ کار ہم نے سکیورٹی فورسز اور افواج پاکستان کے ساتھ مل کر بنایا اس حوالے سے ریکارڈ تیار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ طیبہ تشدد کیس میں ڈی آئی جی کو ہٹانے سے متعلق سمری کو نامنظور کر دیا ہے ، انہیں اس طرح ہٹانا آئی جی کے اختیار میں نہیں آتا‘ساڑھے تین سال میں ساڑھے چار لاکھ شناختی کارڈ بلاک کئے‘جو قانونی ہوں گے انہیں ان بلاک کریں گے،غیرملکیوں کو جاری کئے گئے 32400پاسپورٹ منسوخ کئے ‘اس مرض کی جڑیں بہت گہری ہیں یہ کام اتنا آسان نہیں لیکن اسے منطقی انجام تک پہنچائیں گے‘بابر اعوان سے میرا ذاتی تعلق اور رشتہ ہے ‘وہ کسی جماعت سے ہوں میری ان سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔