• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ٹیلی وژن پر اس قسم کی تقریبات نہیں دیکھتا۔ اس معاملے میں میرا رویہ ’’اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے‘‘ والا ہوتا ہے۔ لیکن ٹرمپ صاحب کی حلف برداری کی تقریب میں نے شروع سے آخر تک دیکھی۔ اس لئے کہ ٹرمپ صاحب امریکہ کے عام صدر نہیں ہیں۔ امریکہ کی تاریخ میں اب تک جتنے بھی صدر آئے ہیں ٹرمپ صاحب ان سب سے مختلف ہیں۔ کیسے مختلف ہیں؟ اس کا اعلان بی بی سی کی وہ خاتون نمائندہ بار بار کر رہی تھیں جو ٹرمپ صاحب کی حلف برداری کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال دکھا رہی تھیں۔ وہ جب بھی ٹرمپ صاحب کا ذکر کرتیں تو یہ بتانا نہ بھولتیں کہ وہ ارب کھرپ پتی پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ ان خاتون نے اتنی بار ارب کھرب پتی کہا کہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ان خاتون کو ٹرمپ صاحب کا یہ عہدہ سنبھالنا اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اب میں نے بھی ٹیلی وژن پر ٹرمپ صاحب کی ایک ایک حرکت اور ان کے چہرے کے ایک ایک تاثر کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ حلف اٹھانے سے پہلے ٹیلی وژن پر جب ان کی انٹری ہوئی تو یوں لگا جیسے ہم ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے ریسلنگ کا پروگرام دیکھ رہے ہیں۔ ایک پہلوان اکھاڑے میں اترتا ہے۔ ادھر ادھر دیکھتا ہے اور نہایت رعونت کے ساتھ اپنے حریف پر نظر ڈالتا ہے۔ ٹرمپ صاحب نے بھی اسی طرح اپنے چاروں طرف نظر ڈالی اور اپنے ہونٹ گول کر کے عجیب سا منہ بنایا۔ خیال تھا کہ حلف اٹھانے کے بعد جب وہ خطاب فرمائیں گے تو ان کا لہجہ تھوڑا بہت مدبرانہ ضرور ہو گا لیکن جس طرح دونوں ہاتھ اٹھا اٹھا کر انہوں نے تقریر شروع کی تو معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ انتخابی مہم ہی چلا رہے ہیں۔ وہی رعونت اور وہی نخوت۔ اور پھر جب وہ اس تقریب سے باہر جانے لگے تو اس قسم کی تقریب اور محفل کے آداب ہی بھول گئے۔ انہوں نے اخلاقاً خواتین کو اپنے آگے چلنے کی دعوت دینے کے بجائے اپنی بیوی اور دوسری خواتین کی طرف پیٹھ کی اور آگے چلنا شروع کر دیا۔ اب حالت یہ تھی کہ باراک اوباما، جو ابھی ایک گھنٹے پہلے تک امریکہ کے صدر تھے، اپنی بیوی کے ساتھ چل رہے تھے، مگر ٹرمپ صاحب بیوی کو چھوڑ کر آگے نکل لئے تھے۔ اب اگر دنیا بھر میں خواتین ان کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں تو وہ غلط نہیں کر رہی ہیں۔ ان کا رویہ عورتوں اور دوسری نسل کے لوگوں کے بارے میں ایسا حقارت والا ہے کہ کوئی بھی اسے پسند نہیں کرے گا۔ لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ دنیا کی سب سے بڑی طاقت اب ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور یہ ٹرمپ کا دور ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ امریکہ جس نے کینیڈی اور باراک اوباما جیسے مہذب اور متمدن صدر کا دور دیکھا ہے اس نے ٹرمپ جیسے عامی کو اپنا صدر کیسے چن لیا؟ اس سوال کا جواب پانے کے لئے آپ امریکہ میں ہی بنائی جانے والی وہ فلمیں دیکھ لیجئے جو ہمارے عبدالرئوف صاحب نے فیس بک پر پوسٹ کی ہیں۔ یہ بارہ فلمیں ہیں جو1933سے 2005تک بنائی گئی ہیں۔ ان میں1941 کی فلم Citizen Kane بھی شامل ہے، جسے آج تک دنیا کی بہترین فلم کہا جاتا ہے۔ یہ تمام فلمیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جنہوں نے عام پسند نعرے لگا کرعوام کو دھوکا دیا اور ان کے ووٹ لے کر اقتدار حاصل کیا۔ اور آخرکار خود بھی نقصان اٹھایا اور ملک کو بھی نقصان پہنچایا۔ انگریزی میں ایسے لو گو ں کو Demagogue کہتے ہیں۔ اردو میں اسے ہیجان خیز سیاست باز، مجمع کے اسفل جذبات ابھارنے والا یا شورش برپا کرنے والا کہہ سکتے ہیں۔ ان فلموں میں یہی دکھایا گیا ہے کہ سستے نعرے لگانے والے یہ سیاست دان عوام کو کیسے بیوقوف بناتے ہیں۔ وہ اقتدار تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن آخر میں ان کا حشر اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے ملک کو بھی۔ ٹرمپ صاحب نے بھی کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ امریکیوں کو ایسے نعروں سے مرعوب کر لیا جو اس وقت تو ایک سنہری خواب نظر آتے ہیں لیکن مستقبل میں ان کے کیا اثرات ہوں گے؟ یہ کسی کو نظر نہیں آتا۔ یہ تنگ نظر قوم پرستی کے خواب ہیں۔ دوسروں سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرنے کے خواب۔ ٹرمپ صاحب کے گوری نسل کے ووٹر اس بات پر خوش ہیں کہ اب ان کی اپنی حکومت ہو گی اورجن ملازمتوں یا کاروبار پر باہر کے لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اب وہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہوں گے۔ اب میں تو معاشیات کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوں لیکن دنیا بھر کے معاشیات کے ماہرین سوال کر رہے ہیں کہ چین جیسے ملکوں سے جو سستا مال امریکہ کو مل رہا ہے اگر اسے بند کر دیا جائے یا اس پر بھاری ڈیوٹی عائد کر دی جائے اور وہ مال امریکہ میں بنایا جائے تو کیا وہ چینی مال کے مقابلے میں مہنگا نہیں ہو گا؟ چین میں لیبر سستی ہے اس لئے اس کا مال بھی سستا ہوتا ہے۔ اسی طرح بڑی امریکی کمپنیوں نے اپنا کام ہندوستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کو آئوٹ سورس کر رکھا ہے، کیونکہ ان ملکوں میں لیبر سستی ہے۔ اگر وہی کام امریکہ کے اندر کیا جائے گا تو کیا اس پر زیادہ سرمایہ خرچ نہیں ہو گا؟ اسی طرح دوسرے شعبوں کے بارے میں بھی سوال کئے جا رہے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کن شرائط پر استوار ہوں گے؟ یہ بھی واضح نہیں ہے۔ بات وہی ہے جو اوپر بیان کی جانے والی فلموں میں دکھائی گئی ہے۔ سیاست میں سستے نعرے لگا کر اور دنیا میں جنت کے خواب دکھا کر کامیابی تو حاصل کی جا سکتی ہے، مگر آخر میں اپنا حشر بھی اچھا نہیں ہوتا اور اپنی قوم کا بھی۔ امریکہ میں ٹرمپ صاحب کے آ جا نے کے بعد اگر آپ پریشان ہیں تو وہ بارہ فلمیں ضرور دیکھ لیجئے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ یہ فلمیں آپ کو یو ٹیوب پر مل سکتی ہیں، سوائے ایک فلم کے، جسے یو ٹیوب والے پاکستان میں دکھانے سے ڈرتے ہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ بہرحال آپ یہ فلمیں دیکھئے اور سوچئے کہ جو ملک ٹرمپ جیسے شخص کو صدر منتخب کر سکتا ہے وہ ایسی فلمیں بھی بنا سکتا ہے۔ اور....اور یہ بہت بڑا ’’اور‘‘ ہے۔ آپ اپنے اردگرد بھی ان لیڈروں پر نظر رکھئے جو سستے نعروں کے بل پر آپ کو کسی اور طرف لے جانا چاہتے ہیں۔

.
تازہ ترین