کولمبو کے ساحل پر خوبصورت ہوٹل کی کھڑکی سے دور تک پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھ کر مجھے گوادر کی یاد آرہی ہے۔ مجھے گوادرکے ساحل پر پھیلا سرمئی پانی یاد آرہا ہے۔ پاکستان کی معاشی تقدیر کے حوالے سے گوادر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مجھے چند ماہ پہلے جنرل راحیل شریف کے ساتھ گوادر جانے کا اتفاق ہوا تھا پھر اسی مہینے بلوچستان کے دل خضدار میں ایک روزہ سیمینار میں شرکت کاموقع ملا۔ جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ مہمان خصوصی تھے۔ جنرل باجوہ اس روز بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔ انہوں نےاپنی یادیں بھی تازہ کیں۔ انہوں نے دوران سروس بلوچستان میں گزرے ہوئے ماہ و سال کو یاد کیا۔ میرے لئے یہ خوشی کی بات تھی کہ پاکستانی فوج کے چیف یہ کہہ رہے تھے کہ ہوسکتا ہے چند سالوں بعد میری جگہ کوئی ایسا آرمی چیف آ جائے جس کا تعلق سرزمین ِ بلوچستان سے ہو۔ جنرل باجوہ نے ایک اور حوصلہ افزا بات کا تذکرہ کیا کہ اس وقت پاک فوج کے نئے افسران میں سے ساڑھے تین سو افسران کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ قومی دھارے میں اتنی بڑی شمولیت اس سے پہلے نہیں تھی۔ خضدار میں تعلیم سے بلوچ طالبعلموں کی لگن دیکھ کر آرمی چیف نے نسٹ کاایک کیمپس بنانے کا اعلان کیا۔ نمل کے زیراہتمام کوئٹہ میں چینی زبان سکھانے کے لئے ایک جدید سینٹر بنانےکا اعلان کیا۔
خضدار جسے بلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار ثنا اللہ زہری نے پاکستان کی معاشی شہ رگ قرار دیا۔ بلوچستان کا اہم اور مرکزی شہر ہے۔ یہ کوئٹہ، کراچی، گوادر اور سکھرکے درمیان ہے۔ اس شہر کو ایک جنکشن کی سی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ بلوچوں کے چار اہم قبائل کا تعلق خضدار ہی سے ہے۔ مینگل، بزنجو، حسنی اورزہری چاروں قبیلے خضدار کے ہیں۔ ان چاروں قبیلوں کے افراد سیاست میں انتہائی اہم ہیں۔ عطااللہ مینگل اور اختر مینگل بڑی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ میرے گورنمنٹ کالج لاہورکے دنوں میں نثارمینگل ہمارے کلاس فیلو تھے بلکہ ہوسٹل فیلو بھی تھے۔ میر غوث بخش بزنجو سے سیاست کی تاریخ کے سب طالب علم واقف ہیں۔ ان کے صاحبزادے میر حاصل خان بزنجو آج کل وفاقی وزیر ہیں۔کراچی یونیورسٹی میں حاصل بزنجو اور پیپلزپارٹی کی رہنما فوزیہ وہاب (مرحومہ) کلاس فیلو تھے۔ ایک اور بڑے سیاستدان بھی انہی دنوں کراچی یونیورسٹی میں تھے۔ حاصل بزنجو ٹھنڈے مزاج کے زیرک سیاستدان ہیں۔وہ ہمیشہ قومی دھارے میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یہ کوشش انہیں دوسرے سیاستدانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ سردار فتح محمد حسنی پیپلزپارٹی کے بڑے خاص رہنما رہے ہیں جبکہ سردار ثنااللہ زہری آج کل وزیراعلیٰ بلوچستان ہیں۔ یہ سب اہم نام خضدار ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں خضدار صرف معاشی طور پر اہم نہیں بلکہ سیاسی طور پر بھی اہم ہے۔
انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار میں ایک روزہ سیمینار میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے خضدار کی معاشی اہمیت کا تذکر ہ کیا۔ ساتھ ہی اپنے خاندان کے ان افراد کا تذکرہ بھی کیا جو پاک دھرتی کے لئے شہید ہوئے۔ پاکستان کی خاطر شہید ہونے والے لوگ واقعی اہم ہیں۔ مجھے ذاتی طورپرہمیشہ ایسے لوگوں پر فخر رہا ہے جو پاکستان کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ پاکستان کے لئے سوچتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ جو لوگ پاک دھرتی سے رزق کھاتے ہیں اور پھر پاکستان کے خلاف سرگرم ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کا کردار انتہائی شرمناک ہے۔ ایسے لوگوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے بلکہ ایسے لوگوں کا معاشرتی بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ میںجب بھی ایسے لوگوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے حضرت محمد ﷺ کا یہ حدیث پاک یاد آ جاتی ہے..... ’’وطن سے محبت ایمان کی نشانیوں میں سے ایک ہے.....‘‘
خضدار میں بلوچستان کے دلیر وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس تقریب میں نوجوان خان آف قلات کی بہت پذیرائی کی گئی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آج بلوچستان کے ہر علاقے میں سفر کرنا دشوار نہیں آج وہاں امن و امان ہے۔ اس کا کریڈٹ پاک فوج کے اہم اداروں کو جاتا ہے۔ بلوچستان میں بھارت کے سارے سپنے ٹوٹ چکے ہیں۔ بھارت کو اس ناکامی پر بہت دکھ ہے۔ ہمارے محب وطن لوگوں نےاپنے اداروں کے ساتھ مل کر قابل نفرت لوگوں کو نشان عبرت بنا کر رکھ دیاہے۔ آج بلوچستان میں ترقی کا سفر جاری ہے۔ سی پیک کے فوائد سب سے زیادہ پاکستان کے اس اہم صوبے بلوچستان کو حاصل ہوں گے۔ بلوچ نوجوانوں میں اس حوالے سے بڑا پرجوش ولولہ پایا جاتا ہے۔ مجھے خاص طور پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی طالبات میں ترقی اور حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ میں یہاں پر بلوچستان کی ان خواتین کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس اہم صوبے کے دوردراز علاقوں میں سماج کی خدمت کر رہی ہیں۔ ایسی خواتین میں زبیدہ جلال کا نام سرفہرست ہے۔ زبیدہ جلال نے تعلیم اور خواتین کے حوالے سےاتنا کام کیا ہے کہ ڈاکٹر مالک وزیراعلیٰ رہنے کے باوجود اتنا کام نہیں کرسکے۔ اسی طرح جویریہ ترین اورسلمیٰ حسنی سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طالبات اپنے صوبے اور ملک کی ترقی میں کردارادا کرنے کی خواہاں ہیں۔ خضدار میں بعض طالبات نے تو واشگاف کہا کہ بلوچستان کسی طور بھی پسماندہ نہیں ہے بلکہ یہ چند لوگوں نے پروپیگنڈہ کر رکھا ہے حالانکہ بلوچستان میں ایسے حالات بالکل نہیں ہیں کہ ہمارے اس پیارے صوبے بلوچستان کو پسماندہ کہا جاسکے۔
خضدار سیمینار سے ایک روز پہلے رات کے کھانے پر جنرل عامر ریاض ہمیں بلوچستان کی سچی تصویر دکھا چکے تھے۔ انہوں نے ہمارے سمیت غیرملکیوں کے سارے تیکھے سوالوں کے جواب بڑے احسن انداز میں دیئے۔
پاکستانیو! میں امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ اور ایشیاکے بہت سے ممالک دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے پیارے پاکستان جیسا کوئی نہیں، خدا اس پاک وطن کو سلامت رکھے۔ خدا اس پیارے وطن کے لئے سوچنے والوں کوشاد رکھے۔ جو لوگ اس کے بارےمیں منفی سوچ رکھتے ہیں ان کے بارے میں کسی روز لکھوں گا، ساتھ ہی موم بتی مافیا کا تذکرہ بھی کروں گا کہ ان لوگوں کے مقاصد کیا ہیں؟ صرف اتنا کہوں گاکہ پاکستان جیسا کوئی نہیں اور پاکستان سے محبت کرنےوالوں جیسا بھی کوئی نہیں۔ پروفیسر راشدہ ماہین ملک کا شعر ہے کہ؎
دراز پلکیں وصال آنکھیں
مصوری کا کمال آنکھیں
.