• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا آئی او بی اور ڈی ایچ اے

دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر قوم کی تاریخ میں کچھ ایسے افراد آتے ہیں جو اس قوم و ملک کی تقدیر بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس طرح اداروں کےاندر بھی بعض اوقات ایسے افراد اور سربراہ آئے ہیں جو ان اداروںکا نام روشن کردیتے ہیں۔ پروفیسر فیصل مسعود (ستارہ امتیاز) کا نام بھی ایسے افراد کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے جو اداروں کو بناتے ہیں۔ انہیں شناخت اور مقام دیتے ہیں۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کو ایک معیاری اور بہترین ادارہ بنانے میں ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں اور پروفیسر ممتاز حسن (ستارہ امتیاز) کی محنت جنہوں نے اسے یونیورسٹی بنایا۔ عزیز قارئین ہم پچھلے چالیس برس سے میڈیکل شعبہ اور تعلیمی شعبہ کے سینکڑوں ڈاکٹروں کو مل چکے ہیں۔ بے شمار وائس چانسلر، پرنسپلوں، اساتذہ اور ماہرین کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ جس قدر نالج، اپنے شعبے میں مہارت، تحقیق اور معلومات پروفیسر ڈاکٹر فیصل مسعود کے پاس ہے۔ پاکستان میں شاید ہی گنتی کے دو/چار ڈاکٹروں کے پاس ہی ہوں۔ پھر انہیں ہر موضوع پر اتنا وسیع علم ہے کہ بیان سے باہر، فارسی، پنجابی شاعری، بابا بلھے شاہؒ، خواجہ فریدؒ، وارث شاہؒ کے کلام کو بڑی گہرائی سے پڑھا ہوا ہے۔ انگلش لٹریچر، اردو ادب اور پنجابی ادب کے استاد لگتے ہیں۔ مرض کی تشخیص کمال کی کرتے ہیں۔ واقعی علم کا سمندر اور میڈیکل پروفیشن کے پیر ہیں۔ ویسے بھی اس ملک میں اچھے ڈاکٹرز رہ کتنے گئے ہیں؟ یہاں کے تعلیم دشمن ماحول، میڈیکل کالجوں میں کوئی سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں کی کثیر تعداد ملک سے باہر جا چکی ہے اور وہاں جا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے یہ چند ڈاکٹرز جو انتہائی قابل اپنے پروفیشن کے ساتھ ایماندار اور پاکستان کی خاطر دوسرے ممالک سے لاکھوں ڈالرز کی ماہانہ آمدنی کو خیرباد کہہ کر آئے ہیں ان کے علم اور تجربے سے آج کے نوجوان ڈاکٹرز کچھ سیکھنے کو تیار نہیں، ڈاکٹر فیصل مسعود اپنے طور پر بھی کئی ادویات اور بیماریوں کے حوالے سے ریسرچ بھی کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پی ایچ ڈی کیلشیم اور اینڈوکرائن کے حوالے سے ہے۔ اس ملک میں اینڈوکرائن کے شعبے میں جینوئن ڈاکٹر کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
پرانے وقتوں میں جس طرح کہا جاتا تھا کہ استاد کے قدموں میں بیٹھ کر علم حاصل کرو اور استاد کے جوتے پکڑنا عزت کی بات ہوتی تھی یہ بات پروفیسر فیصل مسعود پر بالکل صادق آتی ہے کہ اس علم دریا کے قدموں میں بیٹھ کر اگر آج کے یہ ینگ ڈاکٹرز علم سیکھیں تو یقین کریں کہ وہ اپنی فیلڈ میں ایک مقام اور نام پیدا کرسکتے ہیں۔ مگر یہاں تو آج کے نوجوان ڈاکٹرز اپنے سینئرز سے علم سیکھنے اور ان کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان کی بے عزتی کرنے، ہڑتالیں کرنے، ٹھیکےلینے، فلیٹوں پر قبضے کرنے اور مریضوں کو مارنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ میڈیکل کالجوں میں اب وہ تعلیمی ماحول بالکل نہیں رہا جو کبھی ہوتا تھا۔ رہی سہی کسر پرائیویٹ میڈیکل کالجوں، میڈ ان چائنہ ڈاکٹروں نے پوری کردی ہے۔ پھر نودولتیوں کی ایک فوج اس ملک میں آچکی ہے جو رشوت کے زور پر میڈیکل کالجوں میں داخلہ لے لیتی ہے۔ آج بھی بعض پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے پاس ایسے چور راستے ہیں جن کے ذریعے غلط داخلے ہورہے ہیں۔ کیا اندھیر مچا رکھا ہے کہ 40فیصد نمبروں والے بھی میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اب یہ لڑکے اور لڑکیاں جب ڈاکٹر بنیں گے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کئی مرتبہ امتحانات میں فیل ہوں گے پھر سفارش اور دیگر ذرائع استعمال کر کے ڈاکٹر بنیں گے۔ انہوں نے کیا علاج کرنا ہے؟ نہ ان کو میڈیکل پروفیشن کی اقدار کا پتہ؟ نہ انہیں بیماریوں کا پتہ؟ نہ انہیں ریسرچ کرنا آتی ہے؟ یہ وہ اناڑی ڈاکٹر ہیں جو ایمرجنسی میں مریضوں اور زخمیوں کو غلط علاج کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو یقین کریں کہ صرف اب سے دو/چار برس بعد آپ کو سر درد اور پیٹ کی درد کی صحیح تشخیص کرنے والے ڈاکٹرز بھی نہیں ملیں گے۔ اب بھی تھوڑا سا وقت ہے کہ اپنے سینئر اساتذہ سے ان کے علم اور تجربے سے کچھ سیکھ لو۔ ایک طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف اربوں روپے خرچ کر کے شعبہ صحت کی بہتری اور ترقی کے لئے کام کررہے ہیں تو دوسری طرف ایسے نالائق ڈاکٹروں کی فوج تیار ہورہی ہے جنہیں بلڈپریشر اور بخار لینا بھی نہیں آتا۔ آپ لاہور کیا پورے ملک کے سرکاری اسپتالوں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی ایمرجنسی میں جا کر دیکھیں۔ حالات بالکل اچھے نہیں، مانا کہ شہباز شریف پنجاب کے ہیلتھ سسٹم کو درست کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں مگر سسٹم انسانوں کے تعاون اور قابلیت سے چلتا ہے۔ ڈاکٹر فیصل مسعود کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے سے قبل سم (سروسزانسٹی ٹیوٹ میڈیکل سائنسز) کے سربراہ تھے۔ انہوں نے وہاں پر ڈاکٹروں کو ریسرچ کی طرف راغب کرنے کے لئے انسٹی ٹیوشن ریویو بورڈ کو بڑا فعال کیا۔ یہ بورڈ آج بھی وہاں کام کررہا ہے۔کے ای ایم یو کا سربراہ بننے کے بعد انہوں نے یہاں پر بھی آئی بی آرکو بڑا فعال کردیا ہے۔ اب اس کی ہر ماہ بڑی باقاعدگی سے میٹنگ ہوتی ہے مختلف میڈیکل کالجوں اور کے ای ایم یو کے اپنے ڈاکٹرز اس کمیٹی میں جن موضوعات پر ریسرچ کرنا ہوتی ہے اور کس طرح ریسرچ ہوگی اور کیا اس ریسرچ سے مریضوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچے گا اس کو چیک کیا جاتا ہے۔ اب تک پچھلے چار برسوں میں آئی بی آرنے مجموعی طور پر 100کے قریب ڈاکٹروں کی ریسرچ کو اخلاقی اقدار کے حوالے سے چیک کر کے انہیں اس پر مزید کام کرنے کی اجازت دی۔ کاش ملک کے دیگر میڈیکل کالجوں میں بھی اس باقاعدگی کے ساتھ آئی آر بی کی میٹنگیں ہوا کریں اور ریسرچ پر توجہ دی جائے۔
ڈی ایچ اے لاہور کے سربراہ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو اداروں کو بناتے ہیں۔ انہوں نے واقعی اپنے دور میں ڈی ایچ اے فیز 6،7اور 8کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا جدید ترین رہائشی علاقہ بنا دیا ہے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے کہ ڈی ایچ اے میں کوئی دو نمبری ہو جائے، کوئی شخص نقشے سے ہٹ کر گھر بنا لے۔ رشوت کا تصور تک نہیں ۔ انتہائی خوبصورت پارک بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں پر ہم ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کو ایک رائے دینا چاہیں گے۔ آپ بھلے ہر فیز میں بیس تیس پارک بنائیں اگر آپ ہر فیز میں ڈیری فارم بنائیں تاکہ ڈی ایچ اے کے رہائشی لوگوں کو خالص دودھ مل سکے۔ یہ کاروبار خود ڈی ایچ اے کرسکتی ہے۔ جس طرح ملٹری ڈیری فارم ہیں اس طرح ڈی ایچ اے کو بھی ڈیری فارم بنانے چاہئیں۔ دوسرے اگر ہر فیز میں کچھ زرعی رقبہ بھی رکھیں، پارکس کو کم کرکے زرعی رقبے کو آباد کریں۔ آنیوالے دنوں میں اس ملک میں زرعی رقبہ شدید کم ہو جائے گا۔
ڈی ایچ اے کے بعض کمرشل علاقوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے خصوصاً فیز ون اور ٹو کے کمرشل زون میں پارکنگ کے لئے مناسب اور وسیع جگہ کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں ایل ڈی اے، ایف ڈی اے اور ایم ڈی اے کو اپنی رہائشی بستیوں کی پلاننگ کیلئے لاہور ڈی ایچ اے سے رہنمائی لینی چاہئے۔

.
تازہ ترین