حیدرآباد ( بیورو رپورٹ) ضلعی انتظامیہ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکام کو نظر انداز کردیا‘ 2 ٹاورز سے تابکاری شعاعوں سے علاقوں میں خطرناک بیماریاں جنم لے سکتی ہیں جبکہ ٹاور کی تنصیب میں متعلقہ کسی بھی ادارے سے این او سی بھی حاصل نہیں کی گئی ہے‘ دو ماہ قبل عدالت نے ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ ایک ماہ میں شہر کے گنجان علاقوں میں قائم موبائل فون ٹاورز کو ہٹایا جائے جس پر تاحال عملدرآمد نہیں کرایا جاسکا ہے جبکہ نئے موبائل فون ٹاور کی پولیس کی سیکورٹی میں تنصیب کا کام جاری ہے جس کے خلاف علاقہ مکین سراپا احتجاج ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر لطیف آباد کو ہدایت کی تھی کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کرایا جائے جس کے تحت کچھ ٹاور ہٹائے بھی گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق شہر کے گنجان علاقوں میں قائم موبائل فون ٹاور کے خلاف علاقہ مکینوں کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ گلشن کالونی لطیف آباد نمبر 9 جو کہ گنجا ن علاقہ ہے جہاں موبائل فون ٹاورز کی تنصیب کا کا م جاری ہے جس کی تنصیب میں حکومتی پالیسی کو بھی نظرانداز کیاگیاہے اور ماہرین کے مطابق جس سے نکلنے والی تابکاری شعاعوں سے علاقے میں خطرناک بیماریاں جنم لے سکتی ہیں جبکہ ٹاور کی تنصیب میں متعلقہ کسی بھی ادارے سے این او سی بھی حاصل نہیں کی گئی ہے جس پر 2 دسمبر 2016ءکو سندھ ہائی کورٹ سرکٹ بینچ نے ڈپٹی کمشنرحیدرآباد کو حکم دیا کہ ایک ماہ کے اندر شہر کے گنجان علاقوں میں قائم موبائل فون ٹاورز کو ہٹایا جائے لیکن ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تاحال شہر کے مختلف علاقوں تعلقہ سٹی ‘تعلقہ لطیف آباداورتعلقہ قاسم کے مختلف گنجان علاقوں میں نصب موبائل فون ٹاورز کے خلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔