پاکستان نے بائیس سو کلومیٹر تک مارکرنے اور کئی ایک ایٹمی وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل کا تجربہ کیا ہے ۔ انتہائی حب الوطنی سے سرشار طبقہ، جس کی یہاں کمی نہیںاور جسے دنیاکے دیگر حصوں میں ہاک کہا جاتا ہے ، جوش سے وارفتہ ہوگیا۔ ہم ایک جوہری طاقت ہیں، اور یہ کوئی آج کی بات نہیں، لیکن جائے حیرت ہے کہ ہمارے اعتماد کی بحالی اور قومی گراوٹ کا سفر تھمنے کی بجائے جیسے ہی انڈیا کی طرف سے کوئی کھنگورابھرا جاتا ہے ، ہمارے دلاور حب الوطن پریشان ہوجاتے ہیں۔ بھارتی وزیر ِ دفاع یا آرمی چیف یا کوئی ہاک (سرحد کے اس پار بھی اس گروہ کی کمی نہیں) کوئی احمقانہ بیان داغتے ہیں ، جیسے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن یا پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکی ، تو ہمارے ریٹائرڈ جنرل اورخودساختہ تجزیہ کارفصیل پر چڑھ کر خطرے کے الارم بجانااور ڈھول پیٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے ؟ اسرائیل ایٹمی ہتھیار رکھتا ہے ، لیکن وہ ان کے بارے میں لب کشائی تک نہیں کرتا۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، اور اتنا ہی کافی ہے ۔دوسری طرف ہم ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں نعرہ زنی کرناخود پر فرض قرار دے چکے ہیں۔ اسرائیل کبھی دعویٰ نہیں کرتا کہ اس کا دفاع ناقابل ِ تسخیر ہے ۔ وہ حقائق کی زبان میں بات کرتا ہے ۔ مشرق ِوسطیٰ میں اسرائیل کی واحد حریف، حزب اﷲ کبھی اپنی سخت جانی اور بقا کی قوت کی تشہیر نہیں کرتی ۔ عمل الفاظ پر بھاری ہوتا ہے ۔ اس منطق کا اطلاق البتہ ہم پر نہیں ہوتا، ہم اپنی فوجی اور ایٹمی طاقت پر بے تکان نعرہ زن رہتے ہیں۔ شا یداس کا مقصد دشمنوں کو ڈرانا نہیں،خود کو یقین دلانا ہوتا ہے ۔ یقین اور اعتماد کی دولت سے مالا مال ایک قوم کو زبانی دعوئوں سے کیا سروکار ؟
اس معرکے کی پہلی صف میں ہمارے بم کے خالق، ڈاکٹر اے کیو خان ہوتے ہیں۔ اگر وہ بیان بازی کی اس صفت (یا صنف) کے ساتھ اسرائیل میں ہوتے تو اب تک جیل میں ہوتے ۔ ذرا دیکھیں اُنھوںنے Mordechai Vanunu(جس نے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کا راز فاش کیا )کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اُسے اٹھارہ سال قید، جس میں دس سال تک قید ِ تنہائی تھی ، کی سزا سنائی گئی ۔ حتیٰ کہ اب بھی وہ اُسے اکیلا نہیں چھوڑتے ۔ اسرائیلی سیاست دان اپنے جوہری اثاثوں کے بارے میں ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لاتے۔ یہ ان کے ہاں ایک طے شدہ اصول ہے ۔
جہاںتک کثیر وارہیڈ لے جانے کی صلاحیت کے حامل ابابیل میزائل کے تجربے کاتعلق تو یہ ٹیسٹنگ کے لئے ہے، نہ کہ شیخی بگھارنے کے لئے ۔ تاہم اس تازہ ترین تجربے سے اٹھنے والا سوال یہ ہے کہ پاکستان کو مزید کتنے ایٹمی ڈیٹرنس کی ضرورت ہے ؟ایک حقیقی دنیا میں ایک ایٹم بم اور موثر ڈیلیوری سسٹم ہی کافی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ دشمن کے پاس سینکڑوں ایٹم بم ہوںلیکن دہلی یا ممبئی (چونکہ ہم انڈیا کی بات کررہے ہیں)کو تباہ کرنے کی طاقت رکھنے والا ایک بم ہی موثر ڈیٹرنس ہوگا۔ ہمارے پاس تو ہتھیاروں کا انبار ہے ، جیسا کہ بم، میزائل ، کروز میزائل ، اور اب میدان ِ جنگ میں استعمال ہونے والے چھوٹے جوہری ہتھیار۔ ہم ہتھیاروں کی بہت بڑی ورائٹی سے مسلح ہیں۔ تاہم اتنی قسم کے ہتھیار رکھنے پر اطمینان کی بجائے پاکستان اپنے محدود وسائل کی قیمت پر انڈیا کے ساتھ ہتھیاروں کی مہنگی اور نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شریک ہے ۔
انڈیا کو ہم پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں، بس اتنا ہی کافی کہ اُس نے ہمیں اس حماقت میں الجھا رکھا ہے ۔ ہم سیکورٹی کی نہ ختم ہونے والی تلاش میں سرگرداں ۔ اسٹیبلشمنٹ تزویراتی پالیسی اپنی مرضی سے بناتی ہے، کسی اور حلقے سے مشاورت کیے بغیر اپنی ڈاکٹرائن طے کرتی ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کی راہ پر ڈالا، اوران سے اس کا کریڈٹ نہیں چھینا جاسکتا ۔ لیکن اُن کے دور کے بعد سے ایٹمی ڈاکٹرائن فوجی کمان کے پاس محفوظ ہے۔ فوجی کمان کا جو بھی فیصلہ ہو تاہے ، قوم قبول کرتی ہے ۔ اب ایٹمی ڈاکٹرائن ، جو ڈیٹرنس کا بیانیہ ہے، مقدس گائے کا درجہ پاچکا ۔کسی کو بھی اس پر سوال اٹھانے کی جرات نہیں کیونکہ ایسا کرنا حب الوطنی کے منافی قرار پائے گا۔ سویلینز انتہائی احتیاط کامظاہرہ کرتے ہوئے اس میدان سے دور رہتے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اُن کے پاس اس کی مہارت ہی نہیں، وہ ڈیٹرنس کی دنیا کے فہم سے عاری ہیں۔ دوسری یہ کہ گزشتہ تیس برس سے سیاسی منظر نامے پر موجود تمام سیاسی قیادت ایٹمی ڈاکٹرائن جیسے بکھیڑ سے ذہن کو الجھانے کی بجائے اپنی جیبیں بھرنے میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے ۔ اس سے زیادہ صاف ستھری فعالیت کی تقسیم ہونہیں سکتی۔ فوج دفاع اور سیکورٹی اور میزائلوں(اس دوران ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹیز کی مصروفیات کو بھی مت بھولیں)کی ذمہ داری رکھتی ہے تو سویلینز مشکوک قسم کی ڈیلز میں کمیشن بنانے، سمندر پار اکائونٹس کھولنے اور جائیداد یں خریدنے میں مصروف ہیں۔ اس طرح اپنے اپنے میدانوں میں اپنی اپنی فعالیت۔ فوجی کمان نے نیشنل سیکورٹی ، جبکہ سویلینز نے جمہوریت ( بلکہ جمہوریت کے تسلسل) کاپرچم تھاما ہوا ہے ۔
یہ ایمنسٹی اسکیم وہ حسن ِ انتظام ہے جس کی حدود میں جمہوریت اور سیکورٹی کے نام پر تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قبلہ حافظ سعید کی جوبھی رائے ہو، پاکستان کشمیر پر حملہ کرکے اسے فتح نہیںکرسکتا۔ ان سے اس موضوع پر لیکچر سن کر Clausewitz بھی سرتھام کر بیٹھ جائے ۔یہی بات انڈیا پر بھی صادر آتی ہے ۔ پاکستان کے پاس انڈیا کو کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لئے کافی طاقت ہے ۔ تو پھر ڈرکس بات کا ہے ؟ضروری ہے کہ ہمارے جنرل قوم کو یقین اور اعتماد کا درس دیں۔ اس کی بجائے حاضر سروس اور ریٹائر جنرل ، دونوں عدم تحفظ کے خدشے کو ارزاں کرتے ہوئے قوم کی سانسیں برہم رکھتے ہیں۔ یقینا پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن میری رائے میںبیرونی سیکورٹی یا ایٹمی عدم توازن کا کوئی مسئلہ نہیں۔ پاکستان اپنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے رہا، اور نہ ہی قومی انحطاط دور کرنے کے لئے دولت پیدا کررہا ہے ۔ ہماری معیشت کا حال پتلا، اور ملک قرض کے انبار تلے دباہوا ہے ۔ یہ ہیں ہمارے مسائل ، اور اس پر مستزاد کہ ہماری حکمران اشرافیہ شرمناک بدعنوانی اور نااہلی کی مجسم تصویر، تو کیاکثیر وارہیڈ لے جانے والے میزائل ان مسائل کا حل ہیں؟
کبھی ہم اپنے جغرافیائی محل ِ وقوع پر اتنے نازاں تھے گویا کہ دنیا اپنی پالیسیاں ہمیں مد ِ نظر رکھ کر بنانے پر مجبور ہے ۔ اب ہم نے اپنے مستقبل کی امید سی پیک کے دامن سے باندھ لی ہے۔ سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان میزائلوں کی تعداد یا طاقت کا کوئی فرق نہ تھا۔ تاہم اُس وقت امریکی جنگجویانہ ذہنیت اور ہتھیار ساز انڈسٹری اور فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس مفروضے کو اتنی ہوا دی کہ امریکہ ایسے ایسے سپر ہتھیار بنانے کی دھن میں مگن ہوگیا جن کاکوئی زمینی استعمال نہ تھا۔ اس موضوع پر وسیع پیمانے پرمواد موجودہے لیکن پاکستان یا انڈیا میں کس کے پاس ا س کے مطالعے کا وقت ہے ۔ درحقیقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان میزائلوں کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ جو یہ بات کہتے ہیں ، وہ قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اور سچی بات یہ ہے کہ قوم بھی دھوکہ کھانے پر تلی رہتی ہے ، ورنہ وہ اپنے رہنمائوں کی حماقت، ایسے سیکورٹی تصورات اور ایٹمی ضرورت کی باتیں سن کرخوش نہ ہوتی۔
.