• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان ایک خوبصورت ریاست ہے جس میں کئی صوبے ایک جھنڈے تلے اکٹھے ہیں۔ ریاست میں ایسی پارٹی کو معتبر مانا جاتا ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں کی زمین سے منسلک ہوں۔ جمہوریت مختلف قبائل اور عقائد سے تعلق رکھنے والے نظریاتی لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جہاں وہ ذات پات، برادری، فرقے اور علاقائی حدود سے ماورا ہو کر ایک عظیم تر مقصد سے جڑ کر قومی سطح پر ریاست کی ترقی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے کوئی بھی ایک ایسی جماعت ابھر کر نہیں آئی جو چاروں صوبوں میں یکساں مقبول ہو یا کم از کم چاروں صوبوں میں اس کو مناسب نمائندگی حاصل ہو۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مشرف دور میں جمہوری اقدار کو پس پشت ڈال کر غیر جمہوری طاقتوں کو نوازا گیا تو سیاست میں ایک نئے چلن کا آغاز ہوا۔ وہ لوگ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا یا جنہیں سیاست کی الف ب بھی معلوم نہیں تھی سیاست میں دَر آئے۔ نئی نئی پارٹیاں اور گروہ وجود میں آئے جن کی وجہ سے کچھ بڑی پارٹیاں تقسیم ہوئیں اور کچھ دیوار سے لگ گئیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی سطح کی پارٹیاں زیادہ متاثر ہوئیں۔ پچھلے دو تین انتخابات کے نتائج دیکھ لیں ہر پارٹی اپنے صوبے میں کلین سویپ کرتی رہی ہے لیکن دیگر صوبوں میں ایک نشست بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے اب سیاسی جماعتوں نے اپنا دائرہ کار صرف ایک ایک صوبے تک محدود کر لیا ہے۔
سندھ کی بات کریں تو پیپلز پارٹی جو کبھی وفاق کی علامت سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی تھی اور پنجاب اس کا سب سے بڑا سیاسی گڑھ تھا وہ بھی اب صرف سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ پنجاب کے لوگوں سے اس کا رابطہ بالکل مفقود ہو کے رہ گیا ہے۔ جس منشور پر ایک عرصہ یہ جماعت انتخابات لڑتی رہی وہ بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے کیوں کہ پیپلز پارٹی کی اتنی حکومتوں کے باوجود عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکی اور نہ ہی پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی طرف پیش رفت کی جا سکی۔ لوگوں کے دلوں میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے لئے ابھی بھی احترام اور محبت موجود ہے مگر وہ اس بنیاد پر آج کی پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے پر رضا مند نہیں ہیں کیوں کہ آج کی پارٹی کی ترجیحات یکسر مختلف ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں آج بھی کھلے عام سیاسی جلسے کرتی ہے، لوگوں سے ووٹ مانگتی ہے، لوگوں پر اپنا حق جتاتی ہے اور یہ ٹھیک بات ہے لیکن جب کبھی مسلم لیگ (ن) یا پی ٹی آئی جیسی جماعتیں سندھ کا رُخ کرتی ہیں تو تمام بڑے بڑے رہنما یہ نعرہ الاپتے نظر آتے ہیں کہ سندھ صرف بھٹو کا ہے۔ اگر بھٹو کو سندھ تک محدود کرنا ہے یا سندھ میں کسی اور جماعت کو ووٹ دینا بھٹو ازم سے غداری ہے تو پھر یہ کس مفروضے پر پنجاب میں ڈیرے ڈال کر بیٹھنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
بلوچستان میں ہمیشہ سے مخلوط حکومت بنتی آئی ہے۔ وزیر اعلیٰ بھلے کسی جماعت کا ہو مگر کابینہ میں کئی جماعتیں شامل ہوتی ہیں کیوں کہ وہاں پہ سرداروں اور گروہوں کا اثر و رسوخ ابھی تک زیادہ ہے۔ دوسرا بڑی سیاسی جماعتیں بھی بلوچستان کے عوام سے زمینی سطح کا رابطہ قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ صرف پیکجز کے اعلانات اور سیاسی جلسے عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لئے کافی نہیں ہیں ان کے مسائل کو سمجھ کر ان کے معاملات کو ترجیح بنا کر ہم آہنگی کی فضا قائم کی جائے اور قومی دھارے میں وہاں کے رہنمائوں کو شامل کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں میں بڑے عہدے دیئے جائیں تو یقینا نتائج خوش آئند ہو سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام بہت ہی محبت کرنے والے اور جمہور نواز ہیں۔ وہ عموماً مرکز سے جڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اسی سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ ملکی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ طریقہ ایک مثبت سوچ کا حامل ہے ورنہ جہاں صوبوں میں مرکزی حکومت کی مخالف جماعتیں برسر اقتدار ہیں وہاں آئے دن ٹکرائو اور عدم تعاون کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔
پنجاب میں پچھلے کئی سالوں سے مسلم لیگ (ن) مضبوطی سے اپنے قدم جمائے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ تو موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی صوبے کی ترقی کے لئے ان تھک محنت اور وژنری رہنمائی ہے اور دوسرا مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں نچلی سطح تک لوگوں سے رابطے استوار کئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے خلاف بہت سارے جواز پیش کئے جا سکتے ہیں مگر کسی اور پارٹی سے موازنہ کرتے ہوئے یہ سب سے بہتر سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آتی ہے جس نے کچھ حد تک واقعتاً ڈیلیور کیا ہے اور عوام کی اکثریت کا اعتماد انہیں آج بھی حاصل ہے۔
صرف کے پی ایسا صوبہ ہے جو ہر دفعہ نئے چہرے آزماتا ہے۔ کے پی میں عموماً مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں کیوں کہ وہاں دینی حوالے سے متحرک سیاسی جماعتیں بھی کچھ نشستیں حاصل کر لیتی ہیں اور وفاق کی حامل جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی یہاں سے تھوڑی بہت نمائندگی میسر آ جاتی ہے۔ پچھلے الیکشن میں کے پی نے تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا۔ یہ ایک دوسری بحث ہے کہ تحریک انصاف نے اس موقع سے کس حد تک انصاف کیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ یقیناً 2018ء کے انتخابات میں ان کی کارکردگی کا عملی نمونہ سامنے آئے گا۔
صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ آبادی کے حوالے سے بھی بڑے صوبے ہیں اور ان دونوں صوبوں سے جڑی سیاسی جماعتیں بھی پاکستان کی نمائندہ جماعتیں ہیں۔ یہ بہت ہی افسوس ناک امر ہو گا کہ اگر اس دفعہ بھی صوبائی سطح تک ہی جماعتیں محدود رہیں۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ وفاقی سطح کی جماعتیں تمام صوبوں کے اندر اپنے منشور اور نظریات کے حوالے سے لوگوں تک رسائی حاصل کریں۔ ایم کیو ایم کو بھی صرف کراچی اور حیدر آباد کی بجائے دیگر اضلاع میں اپنے نمائندے کھڑے کرنے چاہئیں اور ووٹ لینے کے لئے زبان اور مہاجر کی بجائے سیاسی نظام میں تبدیلی اور عوام کی زندگیوں میں بہتری کو منشور میں شامل کر کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنی چاہئے۔ پاکستان میں جمہوریت اپنے قدم جما رہی ہے۔ ہزارہا رکاوٹوں کے باوجود جمہوری حکومت قائم دائم ہے۔ عوام باشعور ہو چکے ہیں۔ اس دفعہ وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی بجائے قومی سطح کی جماعتوں کی طرف رجحان ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کے لئے آج سے سیاسی جماعتوں کو متحرک ہونا پڑے گا اور تمام صوبوں میں انتخابی مہم سے پہلے ان کے معاملات اور مسائل سے آگاہی حاصل کر کے آئندہ کی حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی۔ سیاسی جماعتوں کی یہ کاوش وفاق کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی اور تمام صوبوں کے لوگوں کے درمیان بھی ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو گی۔

.
تازہ ترین