اسلام آباد(ایجنسیاں)وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سیکورٹی ایک کثیرالجہتی معاملہ ہے، محض سرحدیں بند کرنے سے خود کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا‘ آزادی کی تحریکوں کو دہشتگردی سے نہیں جوڑنا چاہئے‘ پاکستان نے خطے میں امن و استحکام کے فروغ کے لئے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا ہے‘ٹرمپ کے حالیہ احکامات سے مسلمانوں کو غلط پیغام گیا‘ مغرب کو اسلام فوبیا اور ہر معاملہ کیلئے اسلام کو موردالزام ٹھہرانے کے رجحان سے نکلنا چاہئے‘دہشتگردوں کا کوئی مذہب ہوتا ہے نہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے جوڑا جاسکتاہے ‘ہرداڑھی والے مرد اورہرحجاب والی عورت کو ممکنہ انتہاپسندنہیں سمجھنا چاہیے ‘ مسائل کاحل عزم میں ہی پوشیدہ ہے، جو مذاکرات نہیں کرتے ان کا مقدمہ کمزور ہو جاتا ہے۔ جمعرات کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ مسائل کو حل کرنے کا راستہ مذاکرات ہیں اور جو مذاکرات کے عمل میں شامل نہیں ہوتے ان کا مقدمہ کمزور ہے‘جنوبی ایشیاءمیں سلامتی کا تناظر مغرب سے مختلف ہو سکتا ہے۔ سیاست اور سلامتی کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہ کیا جائے‘ خطے میں سیاست اور سلامتی کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنے کا رجحان موجود ہے‘ بعض اوقات امن کےلئے جس ٹرپ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ عالمی اور علاقائی امن کےلئے نہیں بلکہ اکثر ذاتی مفادات کے حصول کےلئے ہوتا ہے‘تعاون کا مقصد ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنا ہوتا ہے، عوام کےلئے مختلف قسم کے دو الگ قوانین نہیں ہو سکتے‘جو ایک کےلئے اچھا ہے دوسرے کےلئے بھی وہی اچھا ہے‘جنوبی ایشیاءکی صورتحال کو غیر ملکی سیکورٹی کے تناظر میں نہیں سمجھا جا سکتا، غیر ملکی حل سے خطہ میں سیکورٹی سے متعلق مسائل ختم نہیں کر سکتے‘دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے بین الاقوامی اتحاد ہونا چاہئے لیکن یہ اتحاد باہمی اعتماد، علاقائی تناظر اور علاقائی عوامل کو وسیع تر انداز میں سمجھنے کی بنیاد پر ہونا چاہئے‘ امریکا اور مغرب کی طرف سے ہمارے علاقہ پر کوئی بھی حل مسلط نہیں کیا جا سکتا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کی حمایت ضروری ہے‘ دلوں اور ذہنوں کی یہ جنگ جیتنے کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلامی ممالک کی حمایت ضروری ہے‘مسلمان دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا سب سے بڑا نشانہ ہیں‘سیاست اور سیکورٹی دو مختلف چیزیں ہیں جنہیں ایک دوسرے سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے‘بین الاقوامی مسائل، علاقائی تنازعات اور داخلی مسائل کو سیکورٹی میں کمی سے نہیں جوڑنا چاہئے‘مغرب پر اپنے معاہدوں اور وعدوں کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے فروری 2015ءمیں انتہاءپسندی کے خاتمہ سے متعلق واشنگٹن میں ہونے والی کانفرنس کا ذکر کیا اور کہا کہ کانفرنس میں شریک 60 سے زائد ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دہشت گردی کو کسی بھی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کے صرف ایک سال کے اندر واشنگٹن کی طرف سے سات مسلمان ممالک کیلئے ویزے پر پابندی کے اقدام سے مسلم دنیا میں ایک منفی پیغام گیا ہے۔دریں اثناءچوہدری نثار علی خان سے یورپی یونین کے سفیر کاشن فرنکوئس جین نے جمعرات کو ملاقات کی‘ ملاقات کے دوران یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کے ساتھ شروع کی جانے والی نئی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ اور دوطرفہ تعاون کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا‘وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مؤثربارڈر مینجمنٹ وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے سلسلہ میں مربوط اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، یہ عمل 2020ءتک مکمل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل این جی اوز کے نئے قوانین کے تحت 50 سے زائد آئی این جی اوز کو باقاعدہ منظوری دی جا چکی ہے، باقی ماندہ آئی این جی اوز کی منظوری کا عمل آئندہ 6 ماہ میں مکمل کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی پاداش میں ڈی پورٹ کئے گئے افراد کو صرف اسی صورت قبول کیا جائے گا جب ان کی شہریت کی تصدیق کر لی جائے گی۔