• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی وزیر ِاعظم، نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ سندھ کے معاون دریا انڈیا کے ہیں اور پاکستان کا ان پر کوئی حق نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انڈیا پاکستان کے ساتھ کیا گیا سندھ طاس معاہدہ ختم کرکے دریائوں کے بہائو کا رخ موڑ سکتا ہے تاکہ پنجاب اور جموں اور کشمیر کے علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے آبی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اُن کا کہنا تھا ۔۔۔’’پاکستان کو اس کی غلط کاریوں کی سزا ملنی چاہئے ، نیز اب انڈیا مزید دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا۔‘‘دوسری طرف پاکستان کا کہنا ہے کہ دریائوں کا رخ موڑنا غیر معمولی انسانی تباہی کا باعث بنے گا، چنانچہ ایسی کسی بھی کوشش کو ’’اعلان ِ جنگ ‘‘تصور کیا جائے گا۔ پاکستان کا دریائے سندھ اور اس کے معاون دریائوں کے علاقے کا شمار اُن خطوں میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے ۔ اس کی معیشت کا دارومدار بھی بڑی حد تک پانی پر ہے ۔
سندھ طاس معاہدے پر 1960 ء میں وزیر ِاعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر، جنرل ایوب خان نے ورلڈ بنک کے تعاون سے دستخط کیے تھے ۔دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی تین بڑی جنگوں کے باوجود یہ معاہدہ اپنی جگہ پر موجود رہا۔ اس کے تحت سندھ بیسن سے گزرنے والے چھبیس ملین ایکڑ پانی کو تین سوملین افراد میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ سندھ بیسن کے پانی کا تقریباً بیس فیصد انڈیاکو تین مشرقی دریائوں کی صورت میں دیتا ہے ۔ پاکستان کو تین مغربی دریائوں کے پانی کی صورت میں ساٹھ فیصد پانی ملتا ہے ۔
دراصل تقسیم ہند کے بعد ایسے معاہدے کی ضرورت محسوس کی گئی جب 1948میں دونوں ملکوں کے درمیان دریائوں کے پانی پر ساکن معاہدہ منسوخ ہو گیااور بھارت نے باری دوآب کا پانی روک لیا۔بھارت مختصر جنگ کے بعدمسئلہ کشمیر کو بھی اقوام متحدہ میں لے گیا۔معاہدہ پر رضامند ہونے سے پہلے دونوں ممالک کے مابین تقریبا دس سال تک اس معاملے پر تنائو موجود رہا۔حالیہ برسوں میں ،تاہم،بھارت کی جانب سے دریائے سندھ پر بڑے چھوٹے ڈیم بنا کر معاہدے کی خلاف ورزی اور پاکستان کے حصے میں آئے تین مغربی دریائوں کے پانی کو روکا جاتا رہا ہے۔ان مسائل کو حل کرنے کی دو طرفہ کوششوں کے ناکام ہونے کے بعدپاکستان نے ورلڈ بنک سے قوانین کے مطابق تیسرے فریق کے طور پر مداخلت کرنے کے لئے رجوع کیا ۔ابتدائی دنوں میں اس پر عمل درآمد کے بعد بھارت اب اس کی خلاف ورزی اور تیسرے فریق کی مداخلت پر مزاحمت کر رہا ہے۔
بھارت کی اوچھی حرکتیں پاکستان میں مجرمانہ کارروائیوں کی ذمہ دار ہیں۔موجودہ حالات میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کے باعث دونوں طرف سو کے قریب فوجی اور سویلینز کی ہلاکتیں اور اس پر وزیر اعظم مودی کی تازہ ترین دھمکیا ںپاکستان میں انتشار انگیز صورت حال کو جنم دے رہی ہیں۔مسٹر مودی کا پاکستان مخالف ایجنڈا بنیادی طور پر الیکشن میں ووٹ حاصل کرنے اور حکومت کی کشمیر میں انسانی حقوق مخالف سرگرمیوں سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ہے۔
مودی کی توجہ کا مرکز پاکستان کو دہشت گردوں کا اسپانسر قرار دلانا اورا سے تنہائی کا شکار کرنا ہے۔وہ اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہو ں گے؟الیکشن کے لئے نریندر مودی کے یہ ہتھکنڈے شاید پنجاب اور اتر پردیش میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ٹرمپ انتظامیہ بھی ممکنہ طور پر پاکستان کے خلاف اس جارحانہ انداز کو ناپسند کرے گی تاہم اگرامریکہ پاکستان کو افغانستان کے کھیل میں استعمال کر نا پسند کرے۔بھارت کے پاکستان کو اقوام متحدہ میں تنہا کرنے میں کامیاب ہونے کے بھی کم امکانات ہیں۔
چین پاکستان کو تحفظ دینے کے لئے ویٹو کا استعمال جاری رکھے گا جہاں سی پی ای سی میں اس کی سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر پھیل رہی ہے۔یہ راستہ جنوبی سمندر میں امریکہ کے ساتھ ساتھ بھارت ،آسٹریلیااور جاپان کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث تجارت کے لئے متبادل راستہ ہو سکتا ہے۔بارڈر پر پاکستان کے ساتھ سرد رویہ اور گرم ماحول بھی بھارت کو خاص فائدہ نہیں پہنچا سکتا کیونکہ پاکستان کے پاس اس طرح کی حرکتوں سے نبٹنے کے لئے مناسب دفاعی حکمت عملی دستیاب ہے۔آخر میں ہمارے پاس کچھ بہت اچھی اور مضبوط وجوہات موجود ہیں جن کے باعث بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی خود کو شدید قسم کے نقصانات پہنچائے بغیر نہیں کر سکتا۔سب سے پہلے تو اسے عالمی سطح پر سخت مذمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔بھارت مسئلہ کشمیر پر اخلاقی طور پر زوال کا شکار ہو گا جو کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی بنیادی وجہ ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈیم تعمیر کیے بغیر بالائی دریائے سندھ کے پانی کو روکنے کی وجہ سے انڈین کشمیر اور پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔نریندر مودی کی جنگ برپا کرنے والی کارروائیاں نہایت تباہ کن ہیں۔اس سے بھارت کی معیشت اور سیکولر جمہوریت کو بہت نقصان پہنچے گا۔پاکستان کا صبر اور برداشت قابل تعریف ہے۔اسے کسی بھی صورتحال میں کسی قابل مذمت اقدام میں ملوث نہیں ہو نا چاہئے۔



.
تازہ ترین