• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سندھ ہائی کورٹ کے 22 نومبر 2016 ء کے فیصلے سے سندھ حکومت میں بحران پیدا ہوگیا ہے ۔ اس فیصلے کی روشنی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے 4 مشیروں اور 8معاونین خصوصی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے ، جو سندھ کابینہ کے اہم اور سرگرم رکن تھے ۔ ان میں مرتضیٰ وہاب ، مولا بخش چانڈیو ، سینیٹر سعید غنی ، ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو ، انجینئر بابر آفندی ، نادر خواجہ اور برہان چانڈیو جیسے لوگ بھی شامل ہیں ۔ ان میں کچھ لوگ ٹیکنو کریٹس اور کچھ پاکستان پیپلز پارٹی کے پرانے اور منجھے ہوئے سیاسی کارکن ہیں ۔ ان کا سندھ کابینہ میں بہت اہم کردار تھا ۔ ٹیکنو کریٹس اور تجربہ کار سیاسی لوگوں کو پوری دنیا میں حکومتی عہدوں پر فائز کیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے لے کر آج تک منتخب حکومتوں میں ایسے غیر منتخب افراد وفاقی اور صوبائی کابینہ کا حصہ رہے ہیں ۔
18 ویں آئینی ترمیم کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے ۔ خاص طور پر سندھ ہائی کورٹ نے 18 ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں جو فیصلہ دیا ہے ، اس کی وجہ سے سندھ کابینہ کے 12 ارکان کو ہٹانا پڑا ہے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے مطابق اسمبلی کے ارکان کی کل تعداد کے 11 فیصد ارکان کو فاقی یا صوبائی کابینہ میں بطور وزیر شامل کیا جا سکتا ہے ۔ سندھ اسمبلی کے 168 ارکان کے ایوان میں صرف 18 ارکان کو وزیر بنایا جا سکتا ہے ۔ آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ اپنے پانچ مشیر بھی مقرر کر سکتے ہیں ۔ سندھ کابینہ میں 18 وزراء ، 4 مشیر اور 17 معاونین خصوصی تھے ۔ کابینہ کے ان تمام 39 ارکان کے پاس محکمے بھی تھے ۔ مشیران اور معاونین خصوصی بھی وزراء کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ سندھ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ اپنے ایگزیکٹو اختیارات صرف ایسے وزراء کو سونپ سکتے ہیں ، جو منتخب رکن سندھ اسمبلی ہوں ۔ سندھ رولز آف بزنس کے تحت جو اختیارات مشیروں اور معاونین خصوصی کو دیئے گئے ہیں ، وہ جمہوری سیٹ اپ اور آئین کے منافی ہیں ۔ حکومت سندھ کا موقف یہ ہے کہ آئین میں مشیروں کے اختیارات اور فرائض کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔
یہ ایک آئینی اور قانونی بحث ہے لیکن سندھ حکومت سندھ کے لوگوں کی یہ بات بھی نظر انداز نہیں کر سکتی کہ وزیر اعظم کے مشیر بھی کام کر رہے ہیں اور انہیں وفاقی وزیر کے اختیارات حاصل ہیں ۔ دیگر صوبوں میں بھی مشیران اور معاونین خصوصی موجود ہیں ۔ اس فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہونا چاہئے ۔اس کا اطلاق صرف سندھ پر کیوں ہو رہا ہے ۔
اس بات میں وزن ہے کہ ایک ملک میں ایک ہی قانون ہونا چاہئے ۔ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کا اطلاق وفاقی حکومت ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پر بھی ازخود ہونا چاہئے ۔ 18 ویں آئینی ترمیم میں وزراء اور مشیروں کی تعداد مقرر کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کابینہ بہت بڑی نہ ہو تاکہ سرکاری خزانے پر بوجھ نہ پڑے لیکن دنیا بھر میں ٹیکنو کریٹس ، مختلف شعبوں کے ماہرین ، اچھی شہرت کے حامل افراد اور تجربہ کار سیاسی رہنماؤں کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ امریکہ میں صدر کی کابینہ زیادہ غیر منتخب افراد پر مشتمل ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ منتخب افراد میں ضرورت کے مطابق ٹیکنو کریٹس اور مختلف شعبوں کے ماہرین موجود ہوں ۔ منتخب ارکان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں ، جو کچھ شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں لیکن یہ چند لوگ تمام محکمے اور ادارے چلانے کیلئے کافی نہیں ہوتے ۔ دنیا کی قدیم اور ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی حکومت چلانے کیلئے غیر منتخب ٹیکنو کریٹس اور ماہرین کو کابینہ میں شامل کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ان قدیم جہوریتوں میں اپوزیشن کی شیڈو کابینہ بنائی جاتی ہے اور شیڈو کابینہ کے لوگ متعلقہ وزارت ، محکمہ یا ادارے کے بارے میں بہت زیادہ معلومات رکھتے ہیں یا معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ انہیں متعلقہ شعبوں کا مہر ہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے باوجود غیر منتخب ٹیکنو کریٹس اور ماہرین کو کابینہ میں شامل کیا جاتا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں یہ ’’پریکٹس ‘‘ موجود ہے ۔ چاہے وہاں پارلیمانی نظام ہو یا صدارتی نظام ہو ۔
ہم جس عہد میں رہتے ہیں ، یہ اسپیشلائزیشن کا عہد ہے ۔ اچھی حکمرانی کیلئے کابینہ میں متعلقہ شعبوں کے ’’ اسپیشلائزڈ ‘‘ لوگوں کی زیادہ اہمیت ہے ۔ 2010 ء میں 18 ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی ۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے وزراء کا تقرر تو آئین کے مطابق کیا لیکن اپنی ضرورت کے تحت مشیران اور معاونین خصوصی کا بھی تقرر کیا گیا ۔ ممکن ہے کہ بڑی کابینہ بنانے کا مقصد کچھ لوگوں کو سیاسی طور پر نوازنا ہو لیکن وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جو کابینہ بنائی تھی ، اس کے پس پردہ ایک منصوبہ بندی اور دانش نظر آتی ہے ۔ مرتضیٰ وہاب قانون کے مشیر تھے ۔ وہ قانون کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اچھی شہرت کے حامل بھی ہیں ۔ مولا بخش چانڈیو کے پاس اطلاعات کا قلمدان تھا ۔ وہ سندھ حکومت کے ترجمان کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ان لوگوں میں شامل ہیں ، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اس پارٹی کو دی ۔ وہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے موقف کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ سینیٹر سعید غنی بھی ان جیالوں میں شامل ہیں ، جن کی زندگی کی پہچان پاکستان پیپلز پارٹی ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے والد عثمان غنی شہید ایک لیبر لیڈر تھے ۔ سعید غنی خود بھی لیبر لیڈر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں ۔ اگر انہیں سندھ کابینہ میں محنت کا قلمدان سونپا گیا تھا تو یہ ایک اچھا فیصلہ تھا ۔ مزدوروں کے معاملات کا ان سے بہتر کس کو ادراک ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح انجینئر بابر آفندی بھی آب پاشی کے ماہر ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غلط نہیںتھا۔
حکومت سندھ نے ہائی کورٹ آف سندھ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے چار مشیروں اور 8 معاونین خصوصی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے ، جو سندھ اسمبلی کے منتخب رکن نہیں تھے ۔ سندھ ہائیکورٹ کے اس حکم سے نہ صرف سندھ حکومت کیلئے بحران پیدا ہو گیا ہے بلکہ اگر حکم کا اطلاق پورے ملک پر کیا جائے تو ٹیکنو کریٹس اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو کابینہ میں شامل کرنے کا راستہ بند ہو گیا ہے ۔ صرف منتخب ارکان کو کابینہ میں شامل کیا جا سکے گا ، چاہے وہ متعلقہ شعبے کے بارے میں کچھ جانتے ہوں یا نہیں ۔ دنیا بھر میں غیر منتخب ٹیکنو کریٹس اور ماہرین کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ٹیکنو کریٹس کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ سینیٹ میں ان کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ پوری دنیا کی طرح پاکستان میں وفاقی اور صوبائی کابینہ میں ٹیکنو کریٹس اور ماہرین کو شامل کرنے کی گنجائش ہونی چاہئے ۔ اس کیلئے کوئی آئینی راستہ تلاش کیا جائے ۔ یہ آئینی راستہ سب لوگ مل کر اس وقت تلاش کریں گے ، جب سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا اور سب کو یہ احساس ہو گا کہ سندھ حکومت کیلئے کیا مسائل پیدا ہو گئے ہیں ۔

.
تازہ ترین