جب لب سے دل کا اور دل سے لب کا رابطہ استوار ہو جاتا ہے تو پھر دل کے پھپھولے جل اٹھنے کا موسم آجاتاہے۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
کراچی میں گوشت پوست کے زندہ انسانوں کو کئی دہائیوں تک جس بے دردی و درندگی سے اذیتیں دے دے کر موت کے گھاٹ اتارا گیا اس دور کی دل دہلا دینے والی داستانیں کئی صدیوں تک بیان کی جاتی رہیں گی۔ یہ خوفناک کہانیاں مختلف ذرائع سے سامنے آتی رہی ہیں مگر گزشتہ روز ایک کشتہ ستم نے جس دلسوزی اور دردمندی سے اپنی اور اپنے پولیس قبیلے کی داستان الم بیان کی ہے اس سے فرش تو فرش عرش بھی کانپ اٹھا ہو گا۔انسپکٹر جنرل سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ 1996ء کا آپریشن کامیاب بنانے والے پولیس افسروں کو چن چن کر سڑکوں، گلیوں اور مسجدوں میں قتل کیا گیا اور ان کے قاتل اعلیٰ ایوانوں میں پہنچ کر اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔
1980اور 1990ء کی دہائی میں کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔کوئی اچھا باہمت اور جرات مند پولیس افسر آ جاتاتھا تو اسے ٹکنے نہیں دیا جاتا تھا۔اس دوران 1996ء میں اس وقت کی حکومت کے آہنی عزم و ارادے سے دہشت گردی کے بڑے بڑے بتوں کو پاش پاش کر دیا گیا اور شہر میں وہ مثالی امن قائم ہو گیا کہ بڑے جرائم کیا چھوٹے جرائم کیا، اسٹریٹ کرائم کیا سب کچھ ختم ہوگیامگر پھر پولیس کا یہ کامیاب آپریشن سیاست کی نذر ہوگیا۔اور ذرا دل تھا کر سنئے کہ ایک نہیں، دو نہیں آٹھ دس نہیں بلکہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے سینکڑوں پولیس افسروں کو چن چن کر شہید کر دیا گیا۔میں سوچتا ہوں اور اس ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے پوچھتا ہوں کہ اس وقت حکومت کہاں تھی، اس وقت ریاست کہاں تھی، اس وقت ملک کی دینی و سیاسی جماعتیں کہاں تھیں اور بات بات پر آپے سے باہر ہونے والی سول سوسائٹی کہاں تھی اور بڑے بڑے بارعب ادارے کہاں تھے۔اگست 2016ء میں نائن زیرو پر رینجرز کے ریڈ کے بعد ایسے ایسے ہولناک انکشافات ہوئے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ اہل کراچی نے جنہیں آنکھوں پر بٹھایا تھا وہی گرم سلاخوں سے ان کی آنکھیں نکالتے رہے جس کی سو سو طرح سے نازبرداری کی گئی تھی اس نے وطن عزیز کے خلاف ہرزہ سرائی کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ۔ان وحشت ناک انکشافات کو دل کسی طرح ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ انسانوں کی بستی میں درندوں کو کھل کھیلنے کی اتنی چھوٹ، اتنی بے خوفی اور اتنی آزادی کس نے دے رکھی تھی۔میں کئی برسوں سے سوچ رہا تھا کہ کیا کبھی کراچی میں سچ بولنے کا موسم بھی آئے گا یا نہیں تب ایک صاحب حال اور صاحب کمال نے کہا کہ اے دل گرفتہ شخص ! کبھی تم نے تدبر بھی کیا ہے ، کبھی تم نے غوروفکر بھی کیا ہے قرآن پاک میں قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پڑھو اور بڑے بڑے نامیوں کے مٹتے ہوئے ناموں کی داستان پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ جھوٹ، مکروفریب، جھوٹا جاہ وجلال اور رعب دبدبہ کچھ عرصے تک تو چلتا ہے اور پھر بالآخر سچ بولنے کا ہی نہیں سچ کے بول بالا کا موسم آ جاتا ہے۔ سچ بولنے کے اس موسم میں اگلے روز سابق میئر کراچی اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے فی الواقع کمال کر دیا۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے الطاف حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شہر کراچی کیا تھا تم نے اسے کیا بنا دیا۔یہ شہر امن کا گہوارہ تھا تم نے اسے قتل گاہ بنا دیا۔یہ شہر رواداری اور دلداری کا استعارہ تھا تم نے اسے نخوت و نفرت کی آماجگاہ بنا دیا ۔یہ شہر تہذیب و ثقافت کا روشن ستارہ تھا تم نے اسے نشانہ کشی اور بھتہ خوری کا ٹھکانہ بنا دیا۔یہ شہر علم و آگہی اور شعروادب کا منارہ تھا تم نے اسے جہالت و دہشت کی پستیوں میں گرا دیا ۔یہ شہر مختلف نسلوں، فرقوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والوں کو گلے لگانے کی شہرت رکھتا تھا مگر تم نے گلے کاٹنے اور خون ناحق بہانے کی تجارت شروع کر دی اور اس شہر کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم و قرطاس اور کتاب و جرائد کی بجائے بندوق و کلاشنکوف تھما دی ۔تم نے اس شہر کے نوجوانوں سے جو خواب چھین لئے تھے ہم انہیں نہ صرف ان کے خواب لوٹانے آئے ہیں بلکہ ان خوابوں کی سچی تعبیر بھی ساتھ لیکر آئے ہیں ۔مصطفیٰ کمال کی باتوں میں کمال کی صداقت تھی۔یوں تو الطاف حسین کی کتاب سیاہ کا ایک ایک ورق خونِ ناحق کے چھینٹوں سے رنگین ہے ۔تاہم اس دور میں ایک بار نہیں کئی بار اہل شہر پر قیامتیں ٹوٹ پڑی تھیں۔ 12مئی 2007ء کو اس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر شہر پر قیامت ٹوٹ پڑی اس زمانے کے ایک معروف پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ اس روز سیاہ کو تمام افسران کو مختلف پولیس مراکز میں مقید کر دیاگیا اور شہر ایم کیوایم کے حوالے کر دیا گیا۔چیف جسٹس کی شہرآمد روکنے کراچی کے شہریوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکایا گیا اور جگہ جگہ تڑپتے لاشوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا گیا۔کراچی میں 12مئی کی شام، شام غریباں تھی جبکہ پاکستان کے حاکم اعلیٰ جنرل پرویز مشرف نے اسے شام جشن وطرب کے طور پر اسلام آباد میں منایا اور ہاتھ ہلا ہلا کر کہا جس کی جہاں قوت ہو گی وہ اس کا مظاہرہ تو کرے گا۔بلدیہ ٹائون میں سینکڑوں زندہ انسانوں کو جلانے کا سانحہ تھا۔اسی طرح ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا سانحہ کچھ کم المناک اور دردناک نہیں۔ دیکھئے تاریخ کا پہیہ گھومتے گھومتے اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہا ہے۔ایم کیو ایم کے ایک بانی رکن سلیم شہزاد بھی ۔
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
کی تصویر بنے ہوئے دو روز پہلے کراچی میں وارد ہوئے اور آتے ہی گرفتار کر لئے گئے۔گزشتہ تیس برس سے آن کی آن میں ہنستے بولتے شہر کو بار بار مقتل بنا دینے والے اور روزانہ یک جنبش لب یا اشارہ ابرو سے سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے والے شخص کے چہرے سے نقاب اتر چکا ہے ۔اب وزارت داخلہ نے اس کے ریڈوارنٹ جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے دل دردمند رکھنے والے اے ڈی خواجہ کو نوید ہوکہ
اک ذرا صبر کہ صیاد کے دن تھوڑے ہیں
امیر مینائی نے کہا تھا
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
جناب مینائی کوشاید اندازہ نہ ہو کہ کبھی کبھی قدرت کی کرشمہ سازی سے اسی دنیا میں روز محشر برپا ہو جاتا ہے اور پھر زبانِ خنجر ہی نہیں صیاد کا خودانگ انگ اس کے خلاف بول اٹھتا ہے ۔ اس موقع پر خودصیاد بھی چپ نہیں رہتا اور اس کا ضمیر اسے چپ نہیں رہنے دیتا کیونکہ
سچ بولنے کا موسم آ گیا ہے
.