بڑے چوہدری صاحب نے بڑوں والی بات کی۔ چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے حوالے سے بعض اربابِ سیاست کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایا، یہ کاریڈور بلاشبہ خطے میں تبدیلی و تعمیر کا بہت بڑا منصوبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم سیاستدان اس پر بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کررہے۔ اتنے بڑے منصوبے پر سیاسی بصیرت کا فقدان بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ چوہدری صاحب نے یہ پتے کی بات بھی کہی کہ روٹ کو ہر ایک کی خواہش اور سوچ کے مطابق تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور یہ چشم کشا بات بھی کہ بھارت سمیت بعض طاقتیں اس عظیم منصوبے پر خوش نہیں۔ گزرے سال کے آخری روز مدیرانِ جرائد، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں کیلئے ایوانِ صدر کے ظہرانے میں جناب ممنون حسین نے بھی اسی طرح کی بات کی تھی، یہ اقتصادی راہداری قدرت کا عظیم عطیہ ہے، تعمیر و ترقی کے ایسے مواقع کبھی کبھار نصیب ہوتے ہیں، اِن کا ضیاع، عشروں کا نہیں، صدیوں کا زیاں بن جاتا ہے۔
سوموار کی صبح یہ سطور لکھنے بیٹھا تو ایک بزرگ دوست کا فون آیا،حکومت اس حوالے سے ناقدین کے اعتراضات کا جواب کیوں نہیںدیتی؟ شکوک و شبہات رفع کیوں نہیں کرتی؟کنفیوژن دور کیوں نہیں کرتی؟ہم نے مؤدبانہ عرض گزاری،سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے، جاگتے کو کون جگائے؟ بے چارے احسن اقبال ایک ایک اعتراض کا جواب دے چکے لیکن اگر کوئی ماننے کو تیار ہی نہ ہو۔ مرحوم کالاباغ یادآیا۔ تربیلا اور منگلا کے بعد واپڈا کا ایک اور عظیم الشان منصوبہ۔ تب واپڈا کے کیا شاندار دِن تھے؟ اس کا اپنا پلاننگ ڈویژن تھا، مالی حالات ایسے کہ حکومت کو قرضہ دیا کرتا۔ کالا باغ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ بن چکی تھی، مشینیں لگ گئی تھیں، سول ورک مکمل ہوچکا تھا۔ دو، ڈھائی سال بعد ڈیم میں پانی بھرنا تھااور عظیم الشان منصوبے کے ثمرات شروع ہوجانا تھے، جسے دُنیا کا آٹھواں یا نواں عجوبہ قرار دیا جارہا تھا کہ اس پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ اِسے صوبہ سرحد(موجودہ کے پی کے) اور سندھ کی بربادی کا منصوبہ قرار دیا جانے لگا۔ صوبہ سرحد کے ایک بزرگ لیڈر اِسے بم سے اُڑا دینے کی دھمکی پر اُتر آئے تھے۔ کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری سے لے کر باقی مراحل تک، واپڈا کی سربراہی پر فائز بیشتر افراد کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا لیکن اِن میں سے کسی کو اس میں اپنے صوبے کی تباہی نظر نہ آئی۔ ایک اعتراض یہ تھا کہ کالاباغ ڈیم سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ دلچسپ بات یہ کہ تب واپڈا کے چیئرمین شمس الملک تھے، جن کا تعلق نوشہرہ سے تھا۔ وہ ان خدشات کو بے بنیاد قرار دیتے اور کالاباغ ڈیم کی پرزور وکالت کرتے۔ اُن ہی دِنوں ایک بند کمرے کی میٹنگ کا اہتمام کیا گیا جس میں کالا باغ کی مخالف سیاسی قیادت کے علاوہ، صوبہ سرحد اور سندھ کے فنی ماہرین بھی موجود تھے۔ کالاباغ پر ایک ایک سوال، ایک ایک اعتراض کا کافی و شافی جواب دے دیا گیا۔ ’’جناب! کوئی اور سوال، کوئی اور اعتراض‘‘؟کالاباغ ڈیم مخالف مہم کے سرخیل کا کہنا تھا، کوئی اور سوال نہیں، لیکن میں باہر جا کر وہی بات کہوں گا جو، اب تک کہتا رہا ہوں۔‘‘حیرت ہے، CPEC پر صوبائی تعصبات کو اُبھارنے والے، وزیراعلیٰ کا تعلق اس سیاسی جماعت سے ہے جو پیپلزپارٹی کے بعد اب خود کو چاروں صوبوں کی زنجیر قرار دیتی ہے(یہاں اس سوال کو رہنے دیں کہ بلوچستان اور سندھ میں اس کے پلّے کیاہے؟)پنجاب کے خلاف زہر اگلتے ہوئے وہ CPEC کو چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کی بجائے چائنہ پنجاب اکنامک کاریڈور قرار دیتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے ہمارے بھائی احمد نورانی کا جنہوں نے آج (11جنوری) کے جنگ/نیوز میں اعدادوشمار کے ساتھ بتایا کہ کاریڈور منصوبے کے تحت سرمایہ کاری سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا صوبہ نہ صرف خیبر پختونخوا ہے بلکہ اس سرمایہ کاری کے طویل المعیاد فوائد اُٹھانے میں بھی وہ چاروں صوبوں میں سب سے اوپر ہوگا۔ یہ فوائد انرجی پروجیکٹس، انڈسٹریل پارکس، ڈرائی پورٹ، ٹول ٹیکس اور دیگر منصوبوں سے حاصل ہوں گے۔احمد نورانی اس بات کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ اکنامک کاریڈور کے معاملات پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ وہ اس کیلئے پرائم منسٹر ہاؤس کے ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق وفاقی حکومت نے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو وزیراعظم کے ساتھ چین جانے کی دعوت دی جسے مسترد کردیا گیا۔ یہی نہیں، وزیراعلیٰ صاحب نے دورۂ انگلستان کیلئے بھی وزیراعظم کی ہمسفری سے معذرت کر لی تھی۔ اپنے صوبے کی پسماندگی پر وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا اضطراب اپنی جگہ ، اس کی تعمیر و ترقی کیلئے ان کی بے قراری بھی بجا لیکن کیا انہیں یاد دِہانی کرائی جاسکتی ہے کہ گزشتہ مالی سال میں اپنے صوبے کے ترقیاتی بجٹ کا کتنے فیصد وہ استعمال کرپائے اور کتنے فیصد lapseہوگیا۔ جہاں تک ہمیں یاد پڑتا ہے ، صرف30%بجٹ تھا جو استعمال ہوا۔ باقی 70%کے استعمال کیلئے صوبے کے وزیراعلیٰ کی حکومت کی capacityہی نہیں تھی۔یہ بات تو پرانی ہوگئی، جب بدترین طوفان کے باعث پشاور تباہی سے دوچار تھا، سینکڑوں مکانوں کی دیواریں اور چھتیں زمین بوس ہوگئی تھیں۔ خواتین اور بچوں سمیت درجن بھرافراد جاں بحق اور سَو کے لگ بھگ افراد زخمی ہوگئے تھے۔ پشاور کےاسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور شہر میںسوگ کی فضا تھی تب جناب وزیراعلیٰ اسلام آباد میں دھرنا کنٹینر پر خٹک رقص میں مصروف تھے۔ ویسے اس کاریڈور کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت کا رویہ دلچسپ رہا ہے۔ چینی صدر کو ان ہی دِنوں اسلام آباد آنا تھا کہ خان صاحب اپنے سیاسی کزن کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ گئے۔ تب خان کا کہنا تھا، سب جھوٹ ہے، کوئی دورہ وغیرہ نہیں تھا۔ چینی سفارت خانے کی وضاحت پر کہ دورے سے قبل سیکورٹی معاملات کا جائزہ لینے کیلئے چین سے ٹیم بھی اسلام آباد پہنچ چکی تھی، خان کا نیا مؤقف تھا، وہ پاکستان پر کوئی احسان کرنے نہیں بلکہ بھاری شرح سود پر قرضہ دینے آرہے تھے۔ اب بھی بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت واضح کرے کہ CPECکے 46ارب ڈالر کی نوعیت کیا ہے؟ یہ قرضہ ہے، گرانٹ ہے، انویسٹمنٹ ہے، آخر کیا ہے؟ احسن اقبال بارہا جواب دے چکے، خادمِ پنجاب شہباز شریف ہفتے کی سہ پہر پریم نگر ڈرائی پورٹ پر ریلوے کے لودھراں، رائیونڈ ڈبل ٹریک کی تقریب افتتاح میں بھی وضاحت کررہے تھے کہ 46ارب ڈالر کے ان منصوبوں میں 36ارب انرجی پروجیکٹس پر خرچ ہوں گے، یہ قرضہ ہے ، نہ گرانٹ بلکہ انویسٹمنٹ ہے جس میں سے پنجاب کیلئے صرف2.5ارب ڈالر کے دو منصوبے ہیں بلکہ 9ارب ڈالر سندھ کیلئے ہے۔ خادمِ پنجاب نے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری سمجھی کہ لاہور کی اورنج لائن کا CPECسے کوئی تعلق نہیں، یہ حکومت ِ پنجاب کا اپنا منصوبہ ہے، جس کیلئے 2.4فیصد شرحِ سود سے قرضہ لیا جارہا ہے، 20سال میں اس کی ادائیگی ہوگی اور پہلی قسط 7سال بعد ادا کرنا ہوگی۔ شہبازشریف کا کہنا تھا، آئین نے وفاقی اکائیوں کے حقوق و اختیارات متعین کردیئے ہیں۔ 58%آبادی کے باعث پنجاب کو بڑا بھائی قرار دیا جاتا ہے، تو اس حوالے سے اِسے اپنی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہے۔ اُنہوں نے یاد دِلایا کہ موجودہ این ایف سی ایوارڈ میں پنجاب اپنے حصے میں سے سالانہ 11ارب روپے سے دستبردار ہوگیا اور یوں دوسرے صوبوں کیلئے 5سال میں اپنے حصے سے 55ارب روپے کی قربانی دی۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے اپنے محکمے کے حوالے سے بات کی۔ اُن کا کہنا تھا، CPECمیں ریلوے کیلئے مختص 3.7ارب ڈالر میں پشاور سے کراچی تک ریلوے ٹریک (ایم ایل ون)کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔ ریل کو کراچی سے گوادر تک بھی لے جانا ہے۔ اس میں حویلیاں (کے پی کے) میں جدید ترین ڈرائی پورٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ توکیا اس سے چاروں صوبے مستفید نہیں ہونگے؟کراچی سے پشاور کے راستے میں پنجاب (اور لاہور) بھی آتا ہے۔ ایم ایل ون اپ گریڈ ہو تو اس سے پنجاب بھی مستفید ہوگا، اسے اُٹھا کر مریخ پر تو لے جا نے سے رہے۔ اتوار کو جناب اختر مینگل کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس کے بعد، اب اسی ہفتے وزیراعظم بھی جناب پرویز خٹک سمیت سیاسی راہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ کرے، اب میاں صاحب اُن کے اعتراضات کو اطمینان میں بدل سکیں۔ بے چارے احسن اقبال تو اپنی سی کرچکے۔