• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل ) کے دوسرے ایڈیشن کا آغاز بہت شاندار طریقے سے ہوا۔ اس وقت اس کے حوالے سے سامنے آنے والے بہت سے امکانات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔دنیا میں کرکٹ کھیلنے والی اہم اقوام میں کھیلی جانے والی لیگز کی طرح پاکستان میں بھی T20 لیگ کاتصور کئی سال پہلے سامنے آیا تھا، لیکن نااہلی، بدعنوانی،غفلت اور پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی عدم توجہ اور تصورات کے فقدان کی وجہ سے اسے عملی شکل نہ دی جاسکی، حالانکہ اس پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے رہے ۔
2013میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی قیادت میں تبدیلی کے نتیجے میں یہ ایک پر جوش حقیقت، اور کروڑوں پاکستانیوں کے لئے دلچسپی اور تفریح کا سامان بن کر سامنے آئی ۔یہ سب کیسے ممکن ہوا؟کہا جاتاتھا کہ ایسی لیگ منعقد کروانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آکر اس میں حصہ نہ لیں۔لیکن یہ لیگ متحدہ عرب عمارات میں شائقین سے بھرے ہوئے اسٹیڈیمز میں شاندار طریقے سے منعقد ہوئی اور ملک کے اندر اور باہر اس کے لئے بے مثال ریٹنگ دیکھنے میں آئی۔کہا گیا کہ اس لیگ کا انعقاد ایک رسک ہے جس کے لئے فرنچائزز اورا سپانسرز آگے نہیں آئیں گے مگر اسپانسرز کی بھرپور سپورٹ کے ساتھ فرنچائزز نے 9ملین ڈالر اس پر خرچ کیے۔خدشہ ظاہر کیا گیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اس میں بے تحاشا پیسے ضائع کرے گا لیکن پی ایس ایل کے پہلے ایڈیشن سے 2.6ملین ڈالرز کا منافع ہوا۔
کہا گیا کہ پاکستان سپر لیگ میں شمولیت پرغیر ملکی کھلاڑی آمادہ نہیں ہوں گے ۔اس کے برعکس دنیا کے بہترین کھلاڑی اس لیگ کا حصہ بنے۔کہا گیا کہ پی ایس ایل تنازعات سے متاثر اور بدنام ہوگی لیکن اس کی سیکورٹی ٹیم ہر لمحہ ہوشیار اور نظر رکھے ہوئے ہے۔آگے بڑھتے ہوئے پی ایس ایل کی ٹیم دو نئے سنگ میل عبور کرنے جارہی ہے۔پہلا یہ کہ پی ایس ایل اب خود مختار اور پروفیشنل انتظامیہ کے ساتھ سو ٖفیصد پاکستان کرکٹ بورڈ کا ذیلی ادارہ بننے جارہی ہے۔دوسرا یہ کہ اگلے ماہ لاہور میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی ٹیموں میں شمولیت کے ساتھ فائنل کھیلا جائے گا اور یہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کے لئے راستہ فراہم کر ے گا۔
بد قسمتی سے منفی رویہ رکھنے والے افراد ابھی بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہیں۔ حقائق کو جان بوجھ کو بگاڑنے کے بعد عدا لتوں میں درخواستیں دائر کی جارہی ہیں،وزیراعظم کو شکایتیں درج کرائی جارہی ہیں اور پارلیمنٹ میں سولات اٹھائے جارہے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ پی ایس ایل کو ایک الگ ادارے کی شکل دینا نامناسب اور بد شگونی ہے۔اب وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ لاہور میں فائنل کرانا مناسب نہیں کیونکہ غیر ملکی کھلاڑی رسک لینے کو تیار نہیں ہوں گے۔یہ غیر ملکی کرکٹ تنظیموں کو قائل کرنے والی پی ایس ایل انتظامیہ کی کوششوں کی تحقیر کے مترادف ہے۔غیر ملکی کھلاڑیوں کو رضامند اور قائل کیا جاچکا ہے کہ لاہور پاکستان کا محفوظ ترین شہر ہے جہاںانہیں فول پروف سیکورٹی فراہم کی جائے گی اور یہ کہ پاکستان آرمی اور حکومت نے دہشت گردی کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکا ہے۔
مخالفین جن میں کچھ میڈیا گروپس اور سیاسی جماعتیںشامل ہیں اس شاندار منصوبے کو پٹری سے اتارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جو کہ ایک محفوظ ،پر امن اورمتحرک پاکستان کی تصویر دنیا کےسامنے لائے گا۔تاہم ایک سوال ابھی موجود ہے؟اگر فائنل سے پہلے پاکستان میں کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہو جا تا ہے تو کیا ہو گا؟کیا ناقدین خوشی سے تالیا ں بجائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو پہلے ہی اس سے خبر دار کیا تھا ،اب لاہور میں فائنل کا انعقاد منسوخ کر کے اس کام سے توبہ کرو۔یا محب وطن پاکستانی پاکستان سپر لیگ کی انتظامیہ کے پیچھے کھڑے ہو کر کھلاڑیوں کو قائل کریں گے کہ لاہور ابھی بھی کرکٹ کھیلنے کے لئے ایک محفوظ مقام ہے۔
حال ہی میں ،جو کہ پاکستان کے لئے آئی سی سی ٹاسک فورس کے سربراہ مسٹر جائلز کلارک اور آئی سی سی کے سیکورٹی ماہر باب نکلسن نے پاکستان کا دورہ کیا۔انہوںنے پنجاب حکومت اور پی سی بی کے افسران سے بریفنگ لی اور کافی مطمئن نظر آئے۔لیکن ناقدین مسلسل غیر ملکی کھلاڑیوں کے ذہن میں شکوک وشبہات کے بیج بونے کے لئے کوشاں ہیں جبکہ ٹیم پی ایس ایل ان کے خدشات دور کر نے میں مصروف اور کسی بھی ممکنہ واقعہ سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔اگر ٹیم پی ایس ایل چند غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاہور کے قدافی اسٹیڈیم میں خوشی سے نعرے لگاتے ہزاروں شائقین کے درمیان لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تودنیا کو پرامن پاکستان کے حوالے سے بہترین پیغام جائے گا۔ یہ سول ملٹری افسران کے دہشت گردوں کو شکست دینے کے بیانات سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا ۔یہ ملک میںانٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا ذریعہ ہو گا۔
ہم جانتے ہیں کہ آئی سی سی کے دو فل ممبر ممالک فائنل کامیاب ہونے کی صورت میں اس سال پاکستان کا دورہ کرنے کو تیار ہیں۔ برطانوی سیکورٹی کمپنی کی معاونت سے پنجاب حکومت کا سیف سٹی پروجیکٹ بھی نہایت متاثر کن ہے۔پی ایس ایل کی دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو سربراہ مملکت کے برابروی وی آئی پی سیکورٹی دینے کے لئے انتظامیہ تیار ہے۔پاکستان رینجرز پنجاب پولیس کے تعاون کے ساتھ کھلاڑیوں کوکئی حفاظتی تہوں کو یقینی بنائیں گے ۔ ان حالات میں کیا ٹیم پی ایس ایل انکار کرنے والوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دے یا پورے عزم کے ساتھ اپنے موقف کو آگے بڑھائے کیونکہ اس وقت کرکٹ سے بڑھ کر بہت کچھ اور بھی دائو پر لگا چکا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ خطرہ مول لئے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ کرکٹ کے میدان میں اٹھنے والا ایک چھوٹا قدم پاکستان کے لئے بہت بڑی چھلانگ بن چکا ہے ۔



.
تازہ ترین