پاکستان ایکسپریس شور کوٹ ریلوے اسٹیشن پر آ کر رکی تو پلیٹ فارم پر کھڑے لوگوں نے اس کا اتنا والہانہ استقبال کیا کہ جیسے انہوں نے کافی عرصے بعد کوئی ریل گاڑی دیکھی ہو، جس کو جہاں سے راستہ ملا، اندر آنے کی کوشش میں دکھائی دیا۔ دروازے پر انسانوں کے اس جمگھٹے سے اندازہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے اترنے والا کون ہے اور اوپر چڑھنے میں کون کوشاں ہے، ایک آدمی نے اپنے طور پر پھرتی اور سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ہینڈ بیگ ڈبے کی کھڑکی سے اندر پھینکا اور خود دروازے کی طرف سوار ہونے چلا گیا، اسی اثناء میں گاڑی چل پڑی۔ ڈبے میں موجود لوگوں نے ہینڈ بیگ کی موجودگی کو شک کی نگاہ سے دیکھا اور بم، بم کا شور شروع ہو گیا، ایک مستانے نے بڑھ کر شاید ہنگامی زنجیر کھینچ دی۔ گاڑی رکتے رکتے پلیٹ فارم سے تقریباً ڈیڑھ دو کلو میٹر دور چلی گئی۔ فوری طور پر روایتی انکوائری کے لئے عملہ حرکت میں آ گیا۔
شور کوٹ چونکہ پاکستان ایئر فورس بیس بھی ہے، جہاں لڑاکا طیارے فضاؤں میں جھپٹتے پلٹتے رہتے ہیں، دو طیارے نیچی پرواز کرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پر سے گزرے تو بچوں نے رونا اور عورتوں نے بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کر دیا۔ راستے میں دھند کی وجہ سے گاڑی پہلے ہی لیٹ تھی اب اس میں اور بھی تاخیر ہونا شروع ہو گئی، خیر جب پندرہ بیس منٹ بعد انکوائری عملہ مذکورہ ڈبے میں پہنچا تو اتنے میں ہینڈ بیگ کا مالک بھی ہانپتا کانپتا پہنچ گیا۔ اس نے ابھی بیگ اٹھایا ہی تھا کہ عملہ اسے اٹھا کر نیچے اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی چل پڑی، ہم چونکہ مواصلات کی ترقی اور عروج کے دور کے باشندے ہیں، دلوں میں کتنا ہی فاصلہ کیوں نہ ہو ٹیلیفونک فاصلے سمٹ گئے ہیں، ڈبے میں موجود کمبل کی بُکل میں گم سم بیٹھا ایک شخص جو شور کوٹ سے ہی سوار ہوا تھا، نے اچانک جیب سے موبائل ٹیلیفون نکالا، کھڑکی کا شیشہ اوپر اٹھایا، باہر لڑاکا طیارے دیکھے تو اردو پنجابی ملی جلی زبان میں کسی سے کہنے لگ گیا کہ ” میرے خیال میں جنگ شروع ہو گئی ہے۔ پاکستان لیٹ سی، میں اس پر چڑھ گیا، کوئی ٹکٹ وی نئیں لیا، آپے کسی نے پوچھا تو نمٹ لونگا، کمبل میرے پاس ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو شاید میں، فیصل آباد اترنے کی بجائے راولپنڈی تک چلا جاؤں، رب راکھا “۔ اس شخص کی گفتگو سے مجھے ایسا لگا جیسے پاکستان ایکسپریس پھیل کر پورے پاکستان کو محیط ہو گئی ہو، جہاں لوگوں کی بڑی اکثریت جنگی حالات میں زندگی کرنے پر مجبور ہے، کچھ کا بچپنا سہما ہوا، بعضوں کی جوانیاں روتے ہوئے اور کئی ایک ادھیڑ پن میں سفید پوشی کے زخم سہلاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو بے ٹکٹے ہیں اور احتیاطاً کمبل بھی ساتھ لے کر نکلے ہوئے ہیں، وہ اگر پکڑے جائیں تو مدمقابل سے نمٹ لینے کی قوت ان میں ہوتی ہے اور اگر بچ بچا کے نکل جائیں تو پھر راولپنڈی تک بے دریغ پہنچ جاتے ہیں۔ اس مزاج کے لوگ پاکستان کے ہر علاقے اور محکمے میں پائے جاتے ہیں۔ بچپن میں ایک گانا سنائی دیا کرتا تھا جو اغلباً اسی قسم کے لوگوں کے لئے لکھا گیا ہو گا کہ۔اس دنیا میں سب چور چور
پاکستان کا جغرافیہ تو 1971ء میں بھیانک حالات کا شکار ہوا مگر اس کے بے ٹکٹے مسافروں کی الگ تاریخ ہے، قائداعظم کے داغ مفارقت اور لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد سے ہی بے ٹکٹوں کی چہل پہل شروع ہو گئی تھی مگر پہلا باقاعدہ ” آن دا ریکارڈ “ بے ٹکٹا 27 اکتوبر 1958ء کو پاکستان پر سوار ہوا تھا، اسی عرصے میں پاک بھارت جنگ ہوئی ” آپریشن جبرالٹر “ کا خوفناک کھیل بھی اسی دور کی یادگار ہے، اس کے پس منظر میں کون تھا، سازش کے تانے بانے کس نے بُنے تھے، یہ الگ ایک دلخراش موضوع ہے۔ بہرطور اس میں ہماری بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور بڑے بوٹوں کی آوازیں ایک عرصہ تک جمہوریت کے ایوانوں میں سنائی دیتی رہی، زرعی خوشحالی کے پردے میں معاشی بد حالی کا ایک ایسا دور شروع ہوا کہ اس کے بعد ہر آنے والے نے یہی گلہ کیا کہ خزانہ خالی ہے۔ دوسرے بے ٹکٹے نے سقوط ڈھاکہ کی شرمناک تاریخ رقم کی۔ وہ 25 مارچ 1969ء سے 20 دسمبر 1971ء تک مرمریں جسموں میں پڑا سویا رہا۔ 5 جولائی 1977ء کے بے ٹکٹے نے یوں تو فیصل آباد اترنا تھا مگر راولپنڈی تک چلا گیا، اسے واپسی کا خیال ہی نہ رہا۔ آخرکار فطرت کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔
12/اکتوبر 1999ء کا بے ٹکٹا تو اس اعتبار سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا کہ اسے روک کر چیک تو ایک بندے نے کیا تھا مگر وہ پوری قوم سے نمٹ کر چلا گیا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اگلے سو برس تک یہود و نصاریٰ اور ہنود کی جھڑکیاں سنتی رہیں گی۔ ہرچند کہ ہم پارلیمانی جمہور کے دور سے گزر رہے ہیں لیکن عوام کے نمائندگان کے ان ایوانوں میں بھی بے ٹکٹے دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔وفاقی مشیر داخلہ بھی غیرمنتخب ہے۔ حیرت ہے کیا 342 ممبران اسمبلی اور سینیٹ کے 100/ ارکان میں کوئی بھی اس کا اہل نہیں کہ اسے وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا جاتا۔ اگر مشیر داخلہ حکومت کے کسی پوشیدہ عمل کا رازداں ہے یا شریک کار ہے تو اسے ممبر اسمبلی بنوا لیں، سینیٹ میں لے آئیں، جس طرح مسلم لیگ (ق) والے شوکت عزیز کو اٹک سے لائے تھے۔ یوں تو میرے ایک عزیز دوست پیر فضل حسین کے اکلوتے اور چہیتے داماد پاکستان کے مشیر خزانہ بھی غیر منتخب ہی ہیں مگر وہ چونکہ ایک بینک کے پریذیڈنٹ رہے ہیں جہاں کے لوگ آج بھی انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں، ویسے بھی ابھی تک وہ تھکے ہوئے ہیں کیونکہ فرینڈز آف پاکستان کے سلسلے کی ان کی دوڑ دھوپ بڑی جاں گسل تھی۔ اس سلسلے میں بہت سے ” دوست ملکوں “ میں انہوں نے اپنی زنبیلی محفلیں جمانے کی کوششیں کیں مگر ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو کوپن ہیگن کی ملکہ کے ساتھ ہر اتوار کو ہوتا ہے سنا ہے کوپن ہیگن کی ملکہٴ عالیہ اپنے AMALIENBORG PALACE میں بڑی باقاعدگی سے ہفتہ وار لوگوں کی شکایت سننے کے لئے کھلی کچہری لگاتی ہے مگر کوئی آتا ہی نہیں ہے۔ بہرطور مشیر خزانہ نے پاکستان کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے شکنجے میں جکڑنے کے لئے، کیا کچھ نہیں کیا۔ 1971ء میں اس کا چھٹا بحری بیڑا بحرئہ عرب میں ہچکولے کھاتا رہ گیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ دور نہ جائیں ماضی قریب ہی کو دیکھ لیں، نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جارج ڈبلیو بش کے لئے کیا کچھ نہ کیا، کون کون سا الزام اپنے سر نہ لیا۔ امریکہ کی جنگ اپنی سمجھ کر لڑی، یہودیوں کی ایڈوانس پارٹی کا کردار بھی نبھایا، اپنے بندے پکڑ پکڑ کر اونے پونے داموں امریکہ کے حوالے کئے گئے حتیٰ کہ پاکستان میں طالبان کے افغان سفیر ملّا ضعیف کو بھی بیچ ڈالا حالانکہ وہ ہمارا مہمان تھا، بش کی خوشنودی کی خاطر قبائلی علاقوں کو اپنی ہی افواج کے ہاتھوں تورا بورا جیسا کر دیا۔ ایٹمی سائنسدانوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ باوجود اس کے امریکہ سرکار نے اپنے جن تین غیر ملکی وفادار رہنماؤں جن میں کولمبیا کے صدر الویرو یورائب، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور سابق آسٹریلوی وزیر اعظم جان ہارورڈ شامل ہیں، کو جارج ڈبلیو بش 13 جنوری 2009ء کو امریکہ کا سب سے بڑا اور اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ دے رہے ہیں مگر اس لسٹ میں جنرل پرویز مشرف جیسا امریکی مفادات کا وفادار شامل نہیں، کتنی غلط بات ہے، امریکیوں کو اس طرح کا غیر منصفانہ اور ناروا رویہ انہیں اپنے وفاداروں کی نظر میں ہولا اور بے اعتبار کر دے گا لہٰذا امریکہ بہادر جنرل پرویز مشرف کو فوری طور پر ایوارڈ دے۔