کراچی (نیوز ڈیسک) سندھ کی عظیم دھرتی نے جہاں عظیم شخصیات پیدا کی ہیں وہیں ایسے صوفی بزرگ اور شاعر بھی پیدا کیے ہیں جنہوں نے ہمیشہ سچ کا نعرہ بلند کیا، ظلم کے آگے ہار نہ مانی، ازیتیں اور تکلیفیں برداشت کیں، حتیٰ کہ اپنی جانیں تک قربان کر دیں لیکن انہوں نے حق گوئی کی راہ نہ چھوڑی۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ایک سید محمد عثمان مروندی بھی تھے جنہیں دنیا لعل شہباز قلندر کے نام سے پہچانتی ہے۔ مذہب کے پرچار اور انسانیت کا درس دینے کی راہ میں انہوں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ ان کا فارسی میں کہا گیا ایک شعر اس صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کو اذیتیں پہنچا کر لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن میں تکلیف میں مبتلا ہو کر بھی دوسروں کیلئے باعث تسکین بنا ہوا ہوں۔ ان کا فارسی میں کہا گیا شعر کچھ یوں ہے: تو آن قاتل کہ از بہر تماشہ خون من ریزی، من آن بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم (ترجمہ: تو وہ قاتل ہے جو تماشہ کرنے کیلئے میراخون بہاتا ہے، میں وہ بسمل ہوں جو خونخوار خنجر کے نیچے بھی رقص کرتا ہوں) ۔ لعل شہباز کے مریدوں اور معتقدین نے ان کی شان میں کئی اشعار کہے ہیں جن میں اکثر دھمال کے موقع پر استعمال کیے جانے وا لے اشعار یہ ہیں جو بہت ہی مقبول ہیں: لعل مری پت رکھیو بھلا جھولے لالنڑ، سندھڑی دا، سیہون دا، سخی شہباز قلندر۔ ان اشعار کو میڈم نور جہاں، سندھ کی مایہ ناز لوک گلوکارہ عابدہ پروین اور شازیہ خُشک نے گایا ہے۔