• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردوں نے کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں پر حملے کیے۔ جماعت الحرار نے نہ صرف ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی بلکہ ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں ریاست کے عہدیداروں اور میڈیا کے لبرل عناصر کو اپنا ہدف بنانے کے عزائم کااظہار کیا گیا ۔اس پر حکومت نے افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں پر دہشت گرد گروہوں کو پناہ دینے اور دہشت گردی کی سرپرستی کرنے کا الزام لگایا۔اس کے جواب میں کابل پاکستان پر بدستور حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کو مبینہ طور پر پاکستانی سرزمین پر پناہ دینے کا الزام لگاتا رہا ہے ۔ الزام ہے کہ پاکستانی سرزمین پر محفوظ ٹھکانے رکھنے والے ان انتہا پسندوں نے افغانستان کو زچ کر رکھا ہے ۔ یقینا خطے میں پراکسی جنگیں شدت ، ٹکرائو اور الجھائو کی اس نہج تک پہنچ چکی ہیں کہ ان کاحل تلاش کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ۔
کچھ دیگر پیچیدہ عوامل بھی ہیں۔ پنجاب حکومت نے دہشت گردحملوں کا الرٹ جاری کیا ہے کہ جو پاکستانی انتہا پسند شام اور عراق میں لڑنے گئے تھے، اب واپس پاکستان آکر داعش کی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ پنجابی جہادی عناصر ہیںجنہوں نے اپنی مرکزی تنظیموں سے اُس وقت راستے جدا کرلئے جب پرویز مشرف نے جہادی سرگرمیاں بند کرتے ہوئے کشمیر کا ’’آئوٹ آف دی باکس حل ‘‘ تلا ش کرنے کی کوشش کی ۔ ان گروہوں نے تحریک ِ طالبان پاکستان کی صفوں میں شمولیت اختیار کرلی۔ اب انھوںنے اپنی خدمات داعش کے سپرد کردی ہیں۔ اسی طرح ملاّعمر کی وفات کی خبر آنے کے بعد طالبان کی صفوں سے الگ ہوکر کچھ انتہا پسند وںنے داعش کی اطاعت قبول کرلی تھی۔
جماعت الحرار وہ گروہ جس کے روابط افغان انٹیلی جنس کے ساتھ بھی ہیں اور پاکستانی طالبان کے ساتھ بھی جن کی قیادت ملافضل اﷲ کے پاس ہے اور جو پاکستانی سرحد کے قریب ، افغان علاقے میں کہیں روپوش ہے ۔ابھی ان گروہوں کے خطرے کا تدارک ہونا باقی تھا کہ غیر ریاستی عناصر سے وابستہ ایک اور خطرے نے سراٹھانا شروع کردیاہے ۔امریکہ ، بھارت اورچین کے دبائو کی وجہ سے حافظ سعیداور مولانا مسعود اظہر کو نظر بند کرنے سے ان کی تنظیموں، جن کا فوکس انڈیا رہا ہے، کے کچھ شدت پسند عناصر اپنی راہیں الگ کرکے ریاست ِ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔اس صورت میں ہماری داخلی اور خارجی سیکورٹی کو شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے ۔
آج ریاست کے عناصر اور حکومت پر دہشت گردی کی تمام اقسام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے دبائو بڑھ چکا ہے ۔ پاکستان میں یہ زہریلا پودا 1980 ء کی دہائی میں لگایا گیا جب پاکستانی اور امریکی ایجنسیوں نے افغانستان سے سوویت یونین کو نکال باہر کرنے کے لئے مجاہدین تخلیق کیے ۔ سوویت فورسز کے انخلا کے بعد مجاہدین نے سویت نواز عناصر سے لڑنا شروع کردیا ۔ اس طرح افغانستان بدترین خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔اس شورش میں طالبان کو سر اٹھانے کا موقع مل گیا۔سوویت دستوں کے خلاف طویل لڑائی لڑنے اور پھرخانہ جنگی میں الجھ کر کمزور ہوجانے والے مجاہدین طالبان کی متحد، پرعزم اور تازہ دم قوت کا مقابلہ نہ کرسکے اور طالبان نے سب کا بوریا بستر گول کرکے کابل پر حکومت قائم کرلی ۔ اس کے بعد ہم نے مبینہ طور پر ان عناصر میں سے کچھ کو 1990 ء کی دہائی میں جہاد ِ کشمیر کی راہ دکھا دی۔
نائن الیون کے بعد امریکی حملے نے کابل سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کردیا تو انھوںنے فاٹا میں اپنے ٹھکانے قائم کرلئے ۔ 2000 ء کی دہائی کے اوائل میں پیش آنے والے واقعات پاکستانی طالبان کے سراٹھانے کے لئے ساز گار تھے ۔ اس طرح پاکستانی طالبان سے پنجابی طالبان اور پھر ان کے مختلف گروہ شاخ درشاخ پھیلتے چلے گئے ۔ ایک طویل عرصہ تک پاکستانی ریاست ’’اچھے طالبان‘‘(افغان طالبان) اور ’’برے طالبان ‘‘(پاکستانی طالبان ) کی کنفیوژن کاشکار رہی ۔ جب طالبان نے سوات اور خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی شروع کردی تو پاکستان میں خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ریاست کو کارروائی کرنا پڑی۔ 2007 ء میں پرویز مشرف کی قیادت میں سوات، 2011-12 میں جنرل کیانی کی قیادت میں جنوبی وزیرستان اور 2015-16 میں جنرل راحیل شریف کی قیادت میں شمالی وزیرستان کو انتہا پسندوں سے آزاد کرایا گیا۔
بدقسمتی سے ہماری اس حکمت ِعملی کا منفی رد ِعمل سامنے آیا جب پاکستانی طالبان نے افغانستان میں پناہ لے کر افغان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرلئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ یہ گروہ پاکستان کے خلاف افغان اور انڈین انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پراکسی بن گئے ۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح ماضی میںہم نےجہادی گروہوں کو انڈیا اور افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو کابل کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی بنائی ، اسی طرح اب انڈیا اور افغانستان پنجابی طالبان اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ اس طرح جس دوران یہ تینوں ممالک اپنے اپنے پراکسی دستوں کے ذریعے جنگ لڑرہے ہیں، یہ پراکسی دستے مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں۔یہ صورت ِحال خطے میں داعش کے سراٹھانے کے لئے ساز گار ہے ، چنانچہ پاکستان اور افغانستان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔
اس صورت ِحال پر معروضی انداز میں کیا جانے والا غیر جذباتی تبصرہ کہتا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ بھارتی جارحیت کا تدارک کرنے اور افغانستان میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر کا راستہ روکنے کے لئےماضی میں پاکستان کی مجاہدین اور افغان طالبا ن کو استعمال کرنے کی پالیسی تھی ۔ اس کی وجہ سے افغانستان برباد ہوگیااور وہ اس صورت ِحال کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرا کر اس کا جانی دشمن بن گیا، اور اُس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے والے انتہا پسندوں کی سرپرستی شروع کردی۔ چنانچہ پاکستان کی سلامتی کو انتہاپسندوں اور غیر ریاستی عناصر سے شدید خطرہ لاحق ہوچکا ہے کیونکہ یہ بہت فعال اور زیرک دشمن کے ہاتھوں میں پراکسی دستے بن چکے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان، چاہے اس پر حکومت اور سیکورٹی ادارے پوری توجہ اور خلوص سے عمل کیوں نہ کریں، اس خطرے کا تدارک کرنے میں بے بس ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم داخلی طور پر انتہا پسندی کو ختم کریں، جو کہنا آسان اورکرنا مشکل ہے ۔ بیرونی طور پر بھارت اور افغانستان کے ساتھ امن یا جنگ ، دونوں ناممکن ہیں۔



.
تازہ ترین