’’حرف حق‘‘ احساس غم دل کا صلہ ہے۔ جو ستم گری کی دہلیز پر ہمیشہ قتل ہوا ہے۔ لیکن یہی نقیب سحر بنتا ہے۔ وقت کے پروں پر اڑتا ہے۔ قرنوں پر محیط ہوتا ہے۔ سقراط کٹہرے میں کھڑا تھا۔ بچے اس پر پتھر مار رہے تھے۔ وہ لہولہان تھا۔ اچانک کریٹو کی اس پر نگاہ پڑی اس نے سقراط پر پھول پھینک دیا۔ سقراط مسکرایا ۔ بس اتنا ہی کہا ۔ ’’سچائی روشنی ہے۔‘‘ جوش سڑک پر جارہے تھے۔ بچے ان پر پتھر برسا رہے تھے لیکن وہ سرجھکائے چلے جارہے تھے۔ اچانک غالب کی ان پر نگاہ پڑی۔ انہوں نے ایک پھول جوش پر پھینک دیا۔ جوش مسکرائے۔ بس اتنا ہی کہا کہ میں یہی کٹہرے میں آپ کی طرح کھڑا ہوں۔ ایسا کیوں؟ عدالت عالیہ کے حضور سوال کرونگا۔
My Lord… میں آپ کے حضور سوال کرتا ہوں۔ میرا جرم ثابت کیا جائے۔ مجھ پر الزام ہے کہ میں ’’ملحد و کافر‘‘ ہوں۔ حالانکہ میری فکر قرآن مجید کی فکر کا تسلسل ہے۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے ۔ ’’ہاتہو برہانکم ان کنتم صادقین‘‘ ’’اگر سچے ہو تو دلیل کے ساتھ آئو‘‘ قرآن تفکر و تعقل پر زور دیتا ہے اسی بنا پر میں نے کہا جو انوکہی فکر تھا اور اک نیا پیغام تھا۔اس حکیم نکتہ پرور کا محمد نام تھا۔ اسی فکر کو میں نے ہمیشہ اپنا رہنما قرار دیا۔ غالب نے ’’حفنی نامے‘‘ میں عقل کو ’’سحرگاہ یونانیاں لکھا ہے، میں نے کہا تھا۔
اس جرم میں کہ داعی تطہیر عقل ہوں
تشیغ کا نشانہ بنایا گیا ہوں میں
ایوان آگہی میںجلاتا ہوں کیوں چراغ
میں خانقاہ دریدو مسجد گزیدہ ہوں
حضور والا ۔ مجھ پر الزام یہ بھی ہے کہ میں ہندوستان سے پاکستان کیوں آیا؟ جواب صرف اتنا کہ آزادی کے بعد تقسیم کا بدلہ اردو زبان سے لیا ۔ ’’گدی سے کھینچ لی جو زبان تھی عوام کی۔ اردو میری محبوبہ ہے۔ میں لفظوں کے صوتی آہنگ اور معنوی کیفیات سے آگاہ ہوں۔ میںنے مطرب کی طرح اس کے تاروں سے نغمے نکالے ہیں۔ تہذیب کا آتش کدہ روشن کیا ہے۔ میں مصلحت کی چوکہٹ پر کبھی سجدہ ریز نہیں ہوا۔کیونکہ مصلحت حقیقت کو آلودہ کرتی ہے۔حضور والا ۔ مجھ پر ایک جرم یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ میں نے اس نظام کے خلاف جس میں ایک طرف ہری گھاس چرنے والوں کی ہوس نے انسانی گھاٹ پر قبضہ جمایا ہے۔ اور تین طرف جھلے ہونٹ اور گرسنہ نگاہوں کا بازار سجایا ہے۔ اس کے خلاف انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا جواب صرف اتنا ہی کہ اقبال نے سب سے پہلے سماجی انقلاب برپا کرنے اور ’’آفتاب تازہ‘‘ کی بشارت دی۔ لیکن اس کے باوجود ’’شاعر انقلاب‘‘ کا حق دار مجھے گردانا گیا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نے اپنی فکر کی بنیاد عقل پرستی اور مادی تصورات حیات پر رکھی۔ اور اسی بانٹ سے زندگی کے تمام پہلوئوں کی نشاندہی کی ہے۔ حضور والا میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ادیب اپنے عہد کی مرکزی کشمکش کو نہیں سجتا اور اس کا نقاد نہیں ہے تو وہ نہ تو تاریخی اہمیت کا حامل ہے نہ ادبی ۔میں نے جدید عہد کے سوداگری کے چہرے سے نقاب الٹ دی۔ اور لکھا کہ جنگی جنون ، دہشت گردی اور اسلحے کی تجارت سامراج کا مقدر ہے۔ جو انسان کو اپنے مفادات کی خاطر جنگ کے ایدھن میں جھونک دیتا ہے۔
اک کہانی وقت لکھے گا نئے مضمون کی
جس کی سرخی کو ضرورت ہے تمہارے خون کی
یہ ہونا بہی مقدر ہے۔ اس لئے کہ
بھوکوں کی نظر میں بجلی ہے تپوں کے دہانے ٹھنڈے ہیں
تقدیر کے لب کو جنبش ہے دم توڑ رہی ہیں تدبیریں
…………………
آندھیاں آنے کو ہیں اے بادشاہی کے چراغ
ہم وفاداران پیش، ہم غلامان کہن
قبر جن کی کھدچکی ہے تیار ہے جنکا کفن
حضور والا۔ میری مستقبل گیر دانش نے بیسوی صدی سے اکیسویں صدی کا فاصلہ طے کیا اور یہ پیشن گوئی بھی کی۔
قریب ختم رات ہے رواں رواں سیاہیاں
سفینہ ہائے رنگ و بو کے کھل رہے ہیں بدباں
فلک دھلا دھلا سا ہے زمین ہے دہواں دہواں
افق کی نرم سانولی سلونیوں کے درمیاں
مچل رہی ہیں زرنگار سرخیاں بڑھے چلو بڑھے چلو
حضور والا ۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میرا شعور سب سے زیادہ جاندار اور متحرک ہے۔ اسلئے کہ میں زندگی کے ان چشموں سے پانی کھینچتے ہیں۔ جن کی جولانی کبھی ختم نہیں۔حضور والا۔ کیا ضرورت اس امر کی نہیں ہے کہ قوم میری فکر کا طواف کرے۔تقلید کی جگہ اجتہاد فکر کو بڑھاوا دیا جائے۔ انقلاب نعرہ نہیں۔ معاشی اور سماجی تغیر کا نام بھی ہے۔ اور شعوروفکر کا سفر بھی۔
.