• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب کرپشن، باہمی منافرت، قتل و غارت، گھنائونے جرائم اور انتہا پسندی کا زہر معاشرے کے جسم میں سرایت کر جائے تو معاشرہ دارالفساد بن جاتا ہے۔ دارالفساد میں ہمہ وقت فسادات برپا ہوتے رہتے ہیں اور دہشت گردی انسانی خون کی ندیاں بہاتی رہتی ہے۔ دہشت گردی مذہبی منافرت، انتہا پسندی، کرپشن، نااہلی اور غربت کے سبب پھلتی پھولتی ہے۔ مذہبی منافرت اورانتہا پسندی فدائین کو جنم دیتی ہے جن کے معصوم ذہنوں کی تربیت غلط مذہبی تاویلات کے ذریعے کی جاتی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر قابض مذہبی اور گھنی داڑھیوں والے نمازی مسلمان کیونکراپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہانا اور معصوم شہریوں کا قتل عام کرنا جائز سمجھتے ہیں اور صدر ٹرمپ کے لئے تسکین کا باعث بنتے ہیں؟ ہم بھی وہی قرآن مجید پڑھتے ہیں جو ایک انسان کا خون انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے جس کی تعلیمات کے مطابق انسانی قتل گناہ کبیرہ ہے اور وہ بھی اسی قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں لیکن مسئلہ تاویلات اور من پسند تشریحات کا ہے حالانکہ بنیادی اصول تو کسی صورت نہیں بدلتے۔ چودہ صدیوں پر محیط مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے مذہبی گروہ موجود رہے ہیں جو اپنے ہی بھائیوں کا خون بہاتے رہے ہیں اور جن کے قتل کے فتوے بھی جاری ہوتے رہے ہیں۔ مسئلہ تاویلات، مذہبی تعلیمات اور قرآن حکیم کی من پسند توضیحات کا تھا۔ آج جب ملک دارالفساد بنتا جارہا ہے اور معاشرے کے جسم میں سرایت کردہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ردالفساد کے آغاز کا اعلان کیا گیا ہے تو ہمارے دانشور اسی طرح ’’قومی بیانیے‘‘ کے بال کی کھال اتار رہے ہیں جس طرح بغداد پر حملے کے وقت علماء مذہبی موشگافیوں میں مصروف تھے۔ ایک طرف انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے جارہے تھے اوردوسری طرف علماء اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ حضور نبی کریمﷺ کا سایہ تھا یا نہیں۔
شاید یہ بھی محض اتفاق ہے کہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم طالب علموں کا نہایت سنگدلی سے قتل عام کیا گیا تو عسکری قیادت نے فوراً ٗضرب عضب کا اعلان کیا اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ سیاسی قیادت بھی فوری طور پر ضرب عضب کی ویگن میں سوار ہوگئی کہ اس کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا ورنہ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تک سیاسی قیادت اس طرح کے آپریشن کے لئے تیار نہیں تھی۔ نیشنل ایکشن پلان بنا اور سیاسی قیادت نے کریڈٹ لینے کے لئے امن بحال کرنے کے اعلانات کے ڈھیر لگا دیے لیکن اس پر عمل کرنے میں اس جذبے اور یکسوئی کا مظاہرہ نہ کیا گیا جس کی ضرورت تھی۔ اب شاہراہ قائداعظم لاہور پر دہشت گردی اور سیہون شریف، پشاور، چارسدہ پر مسلسل اورمنظم دہشت گردی نے ردالفساد کو جنم دیا ہے جس کا اعلان سیاسی قیادت نے نہیں کیا۔ عظیم روحانی شخصیت شہباز قلندر کے مزار پر عقیدت مندوں کا قتل عام پورے ملک کو سوگ، خوف اور مایوسی میں لپیٹنے کے لئے کافی تھا۔ روحانی دنیا میں قلندر ایک اعلیٰ ترین روحانی مقام پر فائز ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ آپ قلندر کی طاقت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے لیکن دنیا سے روپوشی اور موت کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ سیہون شریف میں دہشت گردی کے بہت بڑے حملے کے بعد پتہ چلا کہ اکثر کیمرے خراب تھے۔ شاہراہ قائداعظم پر دہشت گردی کی خوفناک واردات کے بعد راز کھلا کہ جائے واردات پر نصب اکثر کیمرے خراب تھے یا ان کی کارکردگی خراب تھی۔ چنانچہ لاہوری سہولت کار انوار الحق کو شاہراہ قائداعظم پر نصب دوسرے کیمروں کی مدد سے شناخت کیا گیا۔ اگر انوار الحق دہشت گرد کے ساتھ مال روڈ پر ڈیڑھ گھنٹے تک موجود نہ رہتا اور تین چکر نہ لگاتا تو شاید سہولت کار کی شناخت مشکل ہو جاتی۔ شاباش انسداد دہشت گردی اور پولیس کے اہل کاروں کو لیکن میں اپنے انتظامی پس منظر میں ایک الجھن میں مبتلا ہوں۔ سیف سٹی کے کیمروں کو ایک دفتر میں خاصی تعداد میں موجود تربیت یافتہ اہل کار نظریں جمائے دیکھ رہے ہوتے ہیں، ہر قسم کے مسافر ان کی نظر میں ہوتے ہیں آخر شاہراہ قائداعظم پر نصب کیمروں کو واچ کرنے والوں نے کیوں نہ نوٹس کیا کہ ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان احتجاجی جلوس کی راہ پر بار بار چکر لگا رہے ہیں۔ ان دو نوجوانوں میں سے ایک کی شکل بھی افغانی ہے، پنجابی یا لاہوری ہرگز نہیں۔ تھرٹ الرٹ بھی آچکا تھا۔ انہوں نے فوری طور پر علاقے کی پولیس یا ایجنسیوں کو انہیں چیک کرنے کی کال کیوں نہ دی۔ دنیا بھر میں لاکھوں وارداتوں کو اسی طرح وقت سے پہلے پکڑاگیا ہے اورناکام بنایا گیا ہے۔ انوار الحق کو دہشت گرد کے ساتھ خودکش حملے سے پہلے روکا اور پکڑا جاسکتا تھا اگر ہمارے اہل کاروں میں اہلیت اور ذہنی ’’ہوشیاری‘‘ موجود ہوتی۔ نااہلی یا اہلیت کی کمی کے ساتھ ساتھ کرپشن بھی شامل حال ہو جاتی ہے۔ خودکش حملوں کی جگہوں پر کیمروں کی خرابی یا غیر معیاری کارکردگی کرپشن کا شاخسانہ ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جب بھی کوئی پروجیکٹ شروع ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی کمیشن اور کرپشن کی کہانیاں اپنی بدبو پھیلانا شروع کردیتی ہیں۔ بے شک غربت ان مسائل کی ماں ہے۔ روپوں کے لئے لوگ گردے بھی بیچ دیتے ہیں، اپنی اولاد کو نیلام یا گروی بھی رکھ دیتے ہیں۔ روپے فدائین اور سہولت کار بھی خرید لیتے ہیں۔ قوم کے ضمیر پر بے حسی کا بوجھ انہی عوامل کا پیدا کردہ ہے۔ گلی گلی کوچے کوچے مافیاز پیدا ہو چکے ہیں جن میں ہیروئن کے اسمگلر، اجرتی قاتل، اغوا برائے تاوان، شراب کی سپلائی، انسانی اسمگلر، دہشت گردوں کے سہولت کار اوران کے کارندے دندناتے پھرتے ہیں۔ آج کے کالم میں برادرم انصار عباسی نے ایک دل دوز واردات کے ذکر پر بے حسی کا ماتم کیا ہے اور ٹھیک کیاہے۔ غریب خواتین کی اسمگلنگ ایک دھندہ بن چکا ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر موجود ہمارے دشمن دہشت گردی میں کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں اگر انہیں پاکستان سے بہ افراط کارندے، ایجنٹ اور سہولت کار میسر نہ ہوں۔ درد دل، سیاسی نااہلی، انتظامی مشینری کی بے حسی اور انتہا پسندی کے سرپرستوں کا حال بیان کرنے کے لئے کالم کافی نہیں لیکن اب یہ تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ہمارا معاشرہ دارالفساد بن چکا ہے۔ فساد کی صفائی ہمہ گیر، موثر اور منظم آپریشن کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے آپریشن کے لئے سیاسی اور عسکری قیادتوں کا مکمل اتفاق، ہم آہنگی اور یکسوئی درکار ہے، ورنہ ضرب عضب کی مانند ردالفساد بھی تشنہ تکمیل رہے گا۔ ردالفساد کے سخت گیراور منصفانہ آپریشن کے ساتھ ساتھ افغانستان سے مل کر متفقہ حکمت عملی بنانا بھی ضروری ہے تاکہ دہشت گردوں کی آمد کا راستہ بند کیا جائے۔ تلخ سچ یہ ہے کہ جرائم کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ اجرتی قتل، اغوا برائے تاوان، کرپشن دہشت گردی وغیرہ وغیرہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں جنہوں نے معاشرے کی رگوں میں فساد کا زہر بھر دیا ہے۔ فساد کو رد کرنے کے لئے ایک ہمہ گیر آپریشن ناگزیر ہے جس کے راستے میں سیاسی مصلحتیں ہرگز حائل نہیں ہونی چاہئیں۔ اس حوالے سے ردالفساد امید کی کرن ہے۔ دعا کیجئے یہ کرن روشنی اور اجالے کا باعث بنے۔

.
تازہ ترین