اسلام آباد.......باچا خان یونیورسٹی پر درندہ صفت دہشت گردوں کے حملے نے مادرعلمی کی رونقوں کو گہری اداسی میں تبدیل کردیا۔ یونیورسٹی کے حاضری رجسٹر پرسجے نام اسپتال کے وارڈز کے باہرفہرستوں کی زینت بن گئے۔
تہذیب و انسانیت کے سفاک دشمنوں نے باچا خان یونیورسٹی کی محفل علم و آگہی پر وار کیا تو مادر علمی سے جڑے فکر و دانش کے کئی قیمتی موتی، تابوتوں میں پنہاں باہر آئے۔
علم کے کئی طالب بچ تو گئے لیکن ان کی منزل اس دن کمرہ جماعت یا ہاسٹل کی بجائے اسپتالوں کے وارڈز بنی، وقت اورحالات کے مد و جزر سہہ کر بچوں کو تعلیم دلوانے والے والدین، ظلم کی اس واردات کے بعد دیوانہ وار زخم خوردہ درس گاہ کی طرف بھاگے، کچھ آہیں بھرکردل و جگر چاک کرتے رہے، تو کچھ فرش پہ گر کر عرش سے سوال کرتے رہ گئے۔
حملے کی خبرکا خوف اور صدمہ کچھ ایسا تھا کہ زمین پاؤں تلے نہ رہی،قدم لڑکھڑائے اورجسم بے جان ہوگئے۔ باچا خان یونیورسٹی کے حاضری رجسٹر پرسجے نام اسپتال کے وارڈوں میں زخمیوں اور شہدا کی فہرست کی زینت بن گئے۔
باچا خان یونیورسٹی کی سوگوار فضائیں اسی رنگ وبو کی منتظراوردعاگوہیں جو جہالت کے گھنے جنگل سے آئے وحشیوں کے وار سے قبل ہر سو موجود تھی۔