• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک فوج نے ’’باقی رہ جانے والے دہشت گردی کے خطرے کو ختم کرنے ، کیے گئے آپریشنز کے نتائج کا تحفظ کرنے اور ملک کی سرحدوں کی سیکورٹی کو مستحکم کرنے کے لئے بلاامتیاز ملک گیر آپریشن شروع کردیا ہے ‘‘آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق فوج، نیوی، ائیرفورس، سول آرمڈفورسز( رینجرز) اور دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں، جیسا کہ پولیس، بھی ’’ انسداد ِدہشت گردی کے وسیع تر منظر نامے پر کیے جانے والے آپریشن ‘‘میں حصہ لیں گی۔ اس بیان میں سب سے اہم لفظ ’’بلا امتیاز‘‘ ہے ۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ پہلے کیے گئے آپریشنز میں کچھ دہشت گرد گروہ اور عناصر بعض وجوہ کی بنا پر چھوڑ دئیے گئے تھے، لیکن اس مرتبہ اُن پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ اس میں دیگر اہم الفاظ ’’باقی رہ جانے والی دہشت گردی‘‘ ہیں۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کا زیادہ تر اہم کام ہوچکا ، اور اب صر ف مکمل صفائی کا عمل درکار ہے ۔ تیسرے اہم الفاظ ’’وسیع تر منظر نامے پر ‘‘ ہیں۔اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ آپریشن ماضی کی طرح صرف کراچی یا فاٹا تک محدود نہیں ہوگا ، نیز چھوٹے بڑے ، ہر قسم کے دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اس آپریشن کا مقصد ملک کو تمام داخلی اور خارجی انتہا پسندعناصر سے پاک کرنا ہے۔ یہ بات قابل ِ غور ہے۔
اگر یہ آپریشن بیان کردہ مقاصد کا نصف بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے لئے کسی نعمت سے کم نہ ہوگا۔ اس سے پہلے کیے گئے آپریشنز میں فاٹا میں پاکستانی طالبان اور کراچی میں ایم کیو ایم کی صفوں میں شامل جنگجو عناصر کو نشانہ بنایا گیاتھا۔بعد میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث بعض عناصر کو مبینہ پولیس مقابلوں میں ختم کیا گیا، لیکن ملک، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں موجود فرقہ واریت اور مذہبی تعصبات پھیلانے والے عناصر کے خاتمے کے لئے کچھ نہ کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس وقت اٹھائے گئے اقدامات میں کسی نہ کسی سطح ُپر امتیاز ضرور برتا جاتا تھا۔ اس کی ایک وجہ شاید ان عناصر کی اہم سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگیاں تھیںجس کے باعث مقامی انتظامیہ بے بس نظر آتی تھی۔دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مقامی اور صوبائی حکومتیں دہشت گردوں کی جانب سے کسی رد عمل کا سامناکرنے کی خواہش نہیں رکھتی تھیں ۔کیا اب ہم یہ سمجھیں کہ ان کے خلاف اب منصوبہ بندی کے تحت ایکشن لیا جائے گا؟اور اگر لیا جاتا ہے تو یہ کس قسم کا ایکشن ہو گا؟اگر بے شمار گرفتاریاں کرنے کے بعد کامیاب قانونی کارروائی نہیں کی جاتی تو یہ صرف وقتی علاج ہو گا کیونکہ سول عدالتیں(ناقص شہادتوں کی بنا پر) انہیں جلد یا بدیر آزاد کر دیں گی ۔لیکن اگر گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کو فوری انصاف کرنے والی فوجی عدالتوں نے سزا سنانی ہے تو پھر اس کے لئے پورے قانونی نظام کو اپ گریڈ کرنا پڑے گا، اور اس کے لئے پارلیمنٹ سے منظوری لینا ہوگی تاکہ کوئی اسے چیلنج نہ کرے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ہوگا کیونکہ پارلیمنٹ تو ابھی تک فوجی عدالتیںقائم کرنے کے لئے بحث میں الجھی ہوئی ہے ، جبکہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے سنائے گئے سزائے موت کے کئی ایک فیصلوں پر عمل درآمد روک دیا ہے ۔
تاہم اصل الجھن اس سے بڑھ کر، کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔اگر چند سو انتہا پسندوں کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائی بھی جاتی ہے تو بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انتہاپسندی کی جڑیں فرقہ واریت میں پیوست ہیں ، اور یہ ہمارے ہاں پروان چڑھائے جانے والے نام نہاد نظریات کی بنیاد ہیں۔ بدقسمتی سے ان نظریات کا اثر بعض سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں، تعلیمی نظام اور میڈیا پر بہت گہرا ہے ۔ چنانچہ جب گزشتہ چھ دہائیوں سے مذہب کو سیاسی رنگ میں رنگا گیا اور پھر ان مسخ شدہ عقائد سے نظریات تراشے گئے تو اب چند ایک برسوں میں اس عمل کا خاتمہ کس طرح کیا جائے گا؟ ہوسکتاہے کہ آپریشن رد الفسادفرقہ واریت کے درجنوں ، یا سینکڑوں کرداروں کو ختم کردے لیکن اس سے اُس نظام کا کچھ نہیں بگڑے گا جو ایسے انتہا پسندوں کو جنم دیتا ہے ۔
’’باقی رہ جانے والی دہشت گردی‘‘تو دہشت گردی کے آئس برگ کا صرف ظاہری کنارہ ہے ۔ اگر اس سے مراد فرقہ واریت پھیلانے والی تنظیمیں ہیں تو جہادی تنظیموں کا شمار کس صف میں ہوگا؟اور یہ وہ جماعتیں ہیں جن کے تیارکردہ کارکن تحریک طالبان پاکستان، اور اب داعش، میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اب اسٹیبلشمنٹ ان جہادی تنظیموں، جن کی فعالیت کا رخ کشمیر کی طرف تھا، کو ختم کرنے کے لئے پرعزم ہوچکی ہے ؟ اب ہمیں پراکسی لشکروں کی ضرورت نہیں رہی ؟یہ سب سوال ، اور بہت سے دیگر، اسی تناظر میں سامنے آئیں گے ۔ اسی طرح افغانستان بارڈر کے قریبی علاقوں کو محفوظ بنایا جانا بھی ضروری ہے ۔ اس کے لئے ہمیں حقانی نیٹ ورک کو یہاں سے نکالنا ہوگا تاکہ اس کے جواب میں افغان حکومت بھی تحریک ِ طالبان پاکستان کی قیادت کو افغان علاقے سے نکال دے ۔ فرقہ وارانہ تنظیمیں اور انتہا پسند تنظیمیں ہی پاکستان کی سلامتی کے لئے حقیقی خطرہ ہیں۔ چنانچہ اب جبکہ فوج نے آپریشن رد الفساد کا آغاز کردیا ہے اور پوری قوم اس کی کامیابی کے لئے دعا گو ہے ، یہ مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ان کا حل نکالے بغیر کچھ دہشت گردہلاک ہوجائیں گے، دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔فی الحال ہم نے اس موضوع پرریاست کو سنجیدگی سے قدم اٹھاتے یا سوچ بچار کرتے نہیں دیکھا ہے۔



.
تازہ ترین