میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹُک سیر کر مزاروں کا
مجھے یاد ہے میں جن دنوں راولپنڈی میں تھا، ممتاز مفتی اور ان کے دوستوں کامشہور ٹولا کبھی کبھار حسن ابدال جایا کرتا تھا ۔ اسی حسن ابدال جہاں سے گزر کر مغل بادشاہ کشمیر جاتے تھے اور جہاں ایک بادشاہ نے خوب صورت حوض میں تیرتی ہوئی رنگا رنگ مچھلیوں کے نتھنوں میں موتی پرودئیے تھے۔ وہیں مغلوں کے زمانے کا ایک قبرستان ہے جس میں اُسی دور کے کئی لوگ دفن ہیں اور سنا تھا کہ کوئی مغل شہزادی بھی حسن ابدال میں مدفون ہے۔ ممتاز مفتی کہا کرتے تھے کہ بڑی ہی عبرت کی جا ہے۔ میں ان سے پوری طرح متفق ہوں۔ ایک حسن ابدال ہی کیا،ہر قبرستان عبرت کا مقام ہوا کرتا ہے۔ چاہے وہ مفلسوں اور غریبوں کا ہو چاہے رؤسا کا، چاہے کالوں کا، چاہے گوروں کا۔ ابھی پچھلے دنوں میں ایبٹ آباد گیا اور پتہ چلا کہ میری قیام گاہ کے قریب ایک گورا قبرستان ہے۔ میرے میزبان مجھے وہاں لے گئے۔ عجب ڈھب کی قبریں دیکھیں۔
ایک گوشے میں سنہ انیس سو سترہ اٹھارہ کی ایک جیسی بہت سی قبریں تھیں۔ ان کے کتبے پڑھے تو معلوم ہوا کہ سب میں نوجوان انگریز فوجی دفن ہیں جنہیں اُس وقت برصغیر میں پھیلنے والی انفلوئنزا کی وبا نے کئی لاکھ افراد کی طرح اجل کا لقمہ بنا کر رکھ دیا تھا اور وہ یوں آناًفاناً مرے کہ دفن ہونے کیلئے اپنے ملک جانا بھی نصیب نہ ہوا۔ انگریزوں کی کچھ عبرت ناک قبریں میں نے پاکستان کے علاقے گجرات میں دیکھیں ۔ شاندار قبریں تھیں جن پر گلابی پلاسٹر کیا گیا ہوگا اور ان میں انگریز فوج کے اعلیٰ افسر دفن تھے۔ وہ افسر جنہوں نے اس علاقے میں سکھوں کو فیصلہ کن شکست دی تھی۔ اب ان کا کوئی پرسان حال بھی نہ تھا۔ ایسی ہی انگریزوں کی قبریں میں نے سکھر کے قریب اس ریلوے اسٹیشن کے پچھواڑے دیکھیں جس کا نام رُک جنکشن ہے اور جہاں سے سرکار انگلیشیہ اپنی ریلوے لائن چمن کے راستے افغانستان اور وسطی ایشیا تک لے جانا چاہتی تھی لیکن افغانی اڑ گئے کہ دھواں اڑاتی اس ولایتی وبا کو اپنی سرزمین پر قدم بھی نہیں دھرنے دیں گے۔ وہ منصوبہ ناکام ہوا اور سکھر کے نواح میں وہ عالیشان اسٹیشن اب ویران سا کھڑا ہے۔وہاں کام کرنے والے کتنے ہی انگریز انجینئر وہیں مرکھپ گئے اور وہیں دفن کردئیے گئے۔ اب جنگلی جھاڑیوں نے ان کی قبروں کو ڈھانپ دیا ہے۔
اب میں آتا ہوں اس سفید فام قبر کی طرف جو اس تحریر کا اصل موضوع ہے۔ میں نے اپنی ایک کتاب کی تیاری میں ملکہ وکٹوریہ کی زندگی کا تفصیل سے مطالعہ کیا تھا۔ملکہ کو ہندوستان سے ، ہندوستا ن کے مسلمانوں سے اور کئی نوابوں اور راجاؤں سے جو وابستگی تھی وہ بھی پریوں کی کسی کہانی سے کم نہیں۔ انہیں ہماری ریاست بہاول پور سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ وہ ریاست اور اس کے حکمرانو ں پر بہت مہربان تھیں۔ بہاولپور میں ان کے نام سے بہت بڑا اسپتال بنایا گیا۔ شہر کے بیچوں بیچ بناہوا شاندار فوارہ ملکہ ہی نے تحفے کے طور پر بھیجا تھا یہاں تک کہ بہاولپور کے تاریخی قلعہ دیراور کے ہاتھی سے بھی بڑے گیٹ پر پڑا ہوا اتنا ہی بڑا تالا انگلستان سے آیا تھا۔ ریاست کے اکثر فرما ں روا اسی قلعے میں پیدا ہوئے ااور اس کے پہلو میں بنے ہوئے قبرستان میں دفن ہوئے۔ چنانچہ وہ بڑا شاہی قبرستان وہیں موجود ہے اور اس کو دیکھیں تو یوں لگے ہے جیسے ہر طرف قبریں نہیں، تاریخ کے اوراق بکھرے ہیں۔ بہاول پور کی تاریخ لمبی چوڑی اور اس کا انجام دل کو دکھانے والا ہے ۔اسی یادگار قبرستان کے بارے میں کسی نے مجھے بتایا کہ یہاں ایک انگریز خاتون دفن ہیں اور وہ ملکہ وکٹوریہ کے خاندان کی لڑکی تھیں اور بیاہ کر بہاول پور آئی تھیں۔بتانے والا تو بتا کر رخصت ہوا لیکن میرا کام دشوار کرگیا۔ تحقیق اور تفتیش میں بس یہی ایک قباحت ہے کہ ایک ذرا سا شرارہ پیچھے پڑ جاتا ہے کہ کہیں سے بھی او رکسی بھی طرح پتہ کرو یہ کس الاؤ سے اڑان بھر کر یہاں تک پہنچا۔ شہر بہاول پور تو میرے دوستوں سے بھر ا ہوا ہے۔ اب میں نے ایک ایک سے پوچھنا شروع کیا کہ قلعہ دیراور کے شاہی قبرستان میں کون انگریز خاتون دفن ہیں؟جواب میں سپاٹ چہرے اور لا علم پیشانیاں دیکھنے کو ملیں۔ہر ایک نے اگلے رو زبتانے کا وعدہ کیا اور وہ اگلا روز کبھی نہ آیا۔آخر مجھے جدید زمانے کی انوکھی ایجادکاسہارا لینا پڑا جو فیس بُک کے نام سے مشہور یا بدنام ہے ۔
میں نے اپنے ان گنت دوستوں سے پوچھا کہ کسی کو خبر ہے کہ اس شاہی قبرستان میں جو انگریز خاتون دفن ہیں وہ کون ہیں؟پہلے تو ایک خاتون نے ملکہ وکٹوریہ کی چھوٹی بیٹی کا نام لکھ بھیجا کہ وہ ہیں۔ پھر اسی طرح کے کچھ الٹے سیدھے جواب آئے۔ اس دوران میری چشم تصور دیکھتی رہی کہ کچھ سنجیدہ انگلیاں کمپیوٹر کے کی بورڈ پر دوڑ رہی ہیں۔آخر میر ے سوال کا جواب آہی گیا۔معلوم ہوا کہ وہ حیدرآباد دکن کے ایک انگریزاسسٹنٹ انجینئر کی بیٹی لِنڈا فلورنس Sayceہیں۔نواب صادق محمد خاں نے انہیں بمبئی میں دیکھا، پسند کیا اور شادی کرلی۔انہیں وہ لنڈا بیگم کہا کرتے تھے۔یہ سنہ انیس سو ستائیس کی بات ہے۔ لنڈا بیگم بہاول پور کے محل میں چھ برس زندہ رہیں اور اس دوران انہوں نے چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا کی۔ وہ مر گئیں اور نواب صاحب نے انہیں قلعہ دیراور کے شاہی قبرستان میں سپرد خاک کیا۔ ان کی قبر اس بڑے ہال سے باہر بنائی گئی جس میں خاندان کے سرکردہ افراد دفن تھے۔ قبر پر چھوٹا سا لیکن عمدہ مقبرہ بنایا گیا جس کے گرد خوبصورت جالی کھڑی کی گئی۔ میں بڑے اشتیاق سے دیکھنے گیا۔ مقبرے کا حال اچھا نہیں تھا۔ بارش کا پانی روکنے کیلئے دروزے میں گتّے اور تختے ٹھونک دئیے گئے تھے۔ جالی میں سے قبر نظر آئی جس پر میلا سا دبیز کپڑا پڑا تھا ۔ نہیں معلوم قبر پر کوئی عبارت تھی یا نہیں۔ لنڈا بیگم کا شادی کے چھ سال بعد ہی مرجانا آج بھی حیران کرتا ہے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ ان کی ماں کو یقین تھا کہ بیٹی کی موت پُر اسرار حالات میں ہوئی ہے۔ انہوں نے لنڈا کی موت کا سرٹیفکیٹ لینے کی کوشش کی جس میں انہیں ناکامی ہوئی۔ اس سلسلے میں انہوں نے انگریز حکام کو جو خط لکھا وہ کہتے ہیں کہ غائب کردیا گیا کیونکہ اگر اس پر کوئی تفتیش ہوتی تو نہیں معلوم کیسے کیسے معاملات سامنے آتے۔بعد میں لِنڈا کے باپ Horaceنے نواب صاحب کے خلاف کوئی عدالتی کارروائی بھی کی جس کی سنہ انیس سو باون کی اپیل کا فیصلہ انٹرنیٹ پر موجود ہے لیکن اس سے کارروائی کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔
لِنڈا بیگم کے بعد نواب صاحب نے اور دو انگریز عورتوں سے شادیاں کیں۔ یہ شاید اس زمانے کا چلن تھا۔ مشہور مصنف وی ایس نائپال نے جو بہاولپور کا دورہ کرچکے تھے نے کہیں لکھا ہے کہ یہ نواب لوگ سفید فام عورتوں کو اپنی شاہی ٹرافی تصور کرتے تھے۔ا ن دو بیویوں کے بارے میں تفصیل نہیں ملتی۔ ان میں سے ایک کو بہاولپور میں لیڈی O کہا جاتا تھا یعنی عامیانہ۔ تیسری کا نام مسز وائی آئی عباسی ملتا ہے جن سے پانچ بیٹیاں ہوئیں۔ ان دو بیگمات کا انتقال بر طانیہ میں ہوا۔ ایک Hoeکے مقام پر دفن ہیں اور ایک Gazebo میں ۔ خود نواب صاحب نے بھی باسٹھ سال کی عمرپائی۔آخری برسوں میں برطانیہ چلے گئے۔ وہیں وفات پائی البتہ میت قلعہ دیراور کے شاہی قبرستان لائی گئی اور بڑے ہال میں دفن ہوئے، لِنڈا بیگم سے کافی دور۔
لکھنے والو ں نے ان کے بارے میں اناپ شناپ، سبھی لکھا ہے لیکن ریاست کے عوام کے دلوں میں اپنا ایسا مقام چھوڑ گئے کہ مارے احترام کے لوگ کسی تفصیل میں نہیں جاتے، یہ بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کم سے کم سات شادیاں کیں جن میں سے صرف نور جہاں بیگم کا واقعہ سارے شہر کو معلوم ہے۔ان کیلئے نور محل تعمیر کیا گیا تھا جس میں انہیں صرف ایک رات رہنا نصیب ہوا کیونکہ صبح اٹھ کر انہوں نے اپنے کمرے کا دریچہ جو کھولا تو سامنے قبرستان نظر آیا۔ محل پر قہر نازل ہوا۔ نورجہاں بیگم پاؤں پٹختی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی محل سے چلی گئیں کہ مجھے قبرستان میں رہنا منظور نہیں۔ سوچتا ہوں کہ اب کے جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ آخر کار انہوں نے کہاں رہنا منظور کیا۔