• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قارئین جس نشے کے بارے میں آج کچھ کہنا ضروری ہو گیا ہے وہ ایک مختلف قسم کانشہ ہے جس کا پینے پلانے یا کھانے سے تعلق نہیں بلکہ یہ خون میں جا کر وجود کے ذرے ذرے میں پھیلتا انسان کو اس حد تک عقل و دانش سے بے گانہ کر دیتا ہے کہ وہ ہر شے اور عمل کو اپنی مرضی، پسند، خوشی اور مفاد کے تناظر میں رکھ کر اس کی وقعت طے کرتا ہے۔ ’’جو میں سوچتا ہوں وہ ٹھیک ہے‘‘ یہ مقولہ ہزاروں جنگوں اور حادثوں کی وجہ بن کر کروڑوں افراد کو نگل چکا مگر ابھی تک انسان اس خوش فہمی کے سحر سے نہیں نکلا۔ پاکستان میں پچھلے کچھ عرصے سے ایک جماعت نے سوفسطائیت کا پرچار شروع کر رکھا ہے۔ وہ اپنے پیروکاروں کے اذہان کو سوچ کے در بند کر کے آنکھیں بند کر کے چلنے کی تلقین کرتی ہے اور ان کے دلوں میں اپنی پسند کے جذبے بیج کر اپنے مفادات کی کانٹوں بھری فصل اُگانے کی خواہشمند ہے تاکہ وہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکے۔ کبھی کبھی کچھ جملے ایک لمحے میں یوں منطقی، سائنسی اور تہذیبی ترقی کی عمارت کو ڈھیر کر دیتے ہیں کہ زندگی پتھر کے زمانے میں جا پہنچتی ہے اور صدیوں کا سفر رائیگاں محسوس ہونے لگتا ہے۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے نیک نام ادارے طالبعلموں کی فکر میں مثبت پہلو اُجاگر کر کے انھیں مفید انسان بنا کر معاشرے میں بھیجتے ہیں تو ان کی شخصیت میں اداروں کا وقار دکھائی دیتا ہے مگر اب تو یہ مفروضہ بھی غلط ثابت ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہری تعلیم باطن میں دِیا جلانے میں نا کام ہے یا نظر کا زنگ اندر تک روشنی پہنچنے ہی نہیں دیتا کہیں تو کچھ مسئلہ ہے کہ معتبر تعلیمی اداروں کی ساری منصوبہ بندی، ملکوں ملکوں لوگوں سے ملنے اور سیکھنے کے مراحل، گھر کی تربیت اور پکی عمر کے تجربے نا کام ہو جاتے ہیں۔ انسان جذباتیت میں اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ انسان کہلانے کے لائق نہیں رہتا۔ سنا ہے جنگل کے بھی کچھ ضابطے ہوتے ہیں۔ حیوان بھی اپنی نسل کے حیوانوں کا خیال کرتے ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو بڑے تنگ منظر نامے میں رکھنے کی وجہ سے آج ہم اس نہج کو پہنچے ہیں کہ ہمارے سکیورٹی اداروں نے شر انگیز قوتوں کی گردن دبوچ لی ہے مگر ہم کھلے عام نفرت کا پرچار کرنے والے سہولت کاروں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے کیونکہ ہماری ساری توجہ لوگوں کی بے دردی سے جان لینے والوں اور اپنی زندگی کے ٹکڑے کرنے والوں کی طرف مبذول ہے جبکہ ایک بیان سے لاکھوں روحوں کو زخمی اور ملول کرنے والوں کو ہم نے یکسر نظر انداز کر رکھا ہے لیکن یاد رہے نفرت کا ایک لفظ کئی دھماکوں سے شدید اذیت کا حامل ہوتا ہے۔ ایسے بیانات لوگوں کو نفرت کرنے پر اُکساتے اور تقسیم کرتے ہیں۔ انسان اِس کائنات کی سب سے معتبر مخلوق ہے وہ اچھا ہے یا بُرا، وہ چور ہو یا قاتل انسان ہونے کے ناطے اُسے پھٹیچر یا ریلو کٹا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اس کے فعل کی وجہ سے انسانیت کو گالی نہیں دی جاسکتی۔ ردّی ہو جانے والی چیزیں جنھیں پھینک دیا جانا یا ضائع کیا جانا مقصود ہو انھیں پھٹیچر کہا جاتا ہے جبکہ انسان جب تک زندہ رہتا ہے وہ اپنی موجودگی سے اپنی اہمیت جتاتا رہتا ہے۔ اُسے کوڑے دان میں پھینکا نہیں جاسکتا۔ ہماری مشرقی روایات کی ایک دنیا امین رہی ہے جب اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا دور نہیں تھا تب بھی اِس دھرتی کے لوگ عزت اور رواداری کے اصولوں کے پیرو کار تھے۔ مہمان کے لئے خود بھوکا رہنے کو ترجیح دیتے تھے مگر آج مہمانوں کے لئے جو لقب استعمال کیا گیا اس نے پوری دنیا کے سامنے ہمیں شرمندہ کر دیا ہے۔ کیا دنیا ہمارے بارے میں اندازے لگانے میں حق بجانب ہے کہ تعلیم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی اور ڈگریوں والوں اور انتہا پسندوں کی سوچ ایک ہی ڈگر پر رواں دواں ہے۔ ایک مچھلی پورے جال کو خراب کرتی ہے۔ اب ہمیں ایسے رہنماؤں کو ملک کی بھاگ دوڑ اور فیصلے کرنے کا اختیار دینا ہے جو کم از کم اخلاقی اقدار کی پاسداری کرنا جانتے ہوں۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ کیا وزارتِ عظمیٰ کی کرسی اتنی دلکش ہے کہ اُس کے لئے اِنسان اخلاقی اقدارہی فراموش کر بیٹھے۔ آج بادشاہت کا دور نہیں جب بھائی بھائیوں کو اور باب بیٹوں کو قتل کر کے اپنا اقتدار قائم رکھتا تھا۔ اب جمہور کے ووٹ سے فیصلہ ہوتا ہے اس کے باوجود بار ہا اسلام آباد پر چڑھائی کی جاچکی ہے۔ کرکٹ کے کھیل نے خان صاحب کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ لاہور میں ایک بڑا انکلوژر ان کے نام سے وابستہ ہے ان کے موجودہ طرز عمل نے ان کی شخصیت اور انکلوژر کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جس شخص میں اتنی اسپورٹس مین سپرٹ نہیں کہ وہ پاکستان کی جیت کو برداشت کر سکے اُس سے حب الوطنی کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔ یہ میچ وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کا نہیں تھا پاکستان کی ساکھ اور ریاست کی رِٹ کا میچ تھا۔ جس کا خوش اسلوبی سے سر انجام پانا ان کو اپنی ہار محسوس ہو رہا ہے۔ آخر وہ کس کی جانب ہیں پاکستان، پاکستانی عوام یا عوام و ملک دشمن قوتوں۔ کم از کم ان کا رویہ تو انھیں حب الوطنی کی بجائے حب الذاتِ شخص ظاہر کرتا ہے۔ وہ شوق سے دیگر معاملات میں حکومت کے خلاف بیانات دیں مگر غیر ملکی کھلاڑیوں اور رہنماؤں کے بارے میں اِس درجہ تضحیک آمیز رویہ اپنانا اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے پھر اُس پر شرمندہ ہونے، معافی مانگنے کی بجائے اسے Justify کیا جا رہا ہے کہ یہ کرکٹ کی زبان ہے۔ اگر کرکٹ کی یہ زبان ہے تو باقی دنیا کے کھلاڑی عام زندگی میں اس قدر شائستگی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ خان صاحب نے انھیں بُڑا بھلا کہا جو اپنی جان ہتیلی پر رکھ کر ہمیں خوشیاں دینے اور ہمارا مورال اَپ کرنے کے لئے آئے تھے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی شکست اور ون سائیڈ میچ کی ذمہ داری بھی خان صاحب کے سر ہے جن کے امن و امان کے بیانات کے بعد پٹرسن اور دیگر کھلاڑیوں نے پاکستان آنے کاارادہ ترک کر کے میچ کو متاثر کیا۔ اندھے اعتقاد اور اندھی محبت کا وقت گزر چکا۔ اب سوچنا ہوگا کہ جو شخص لوگوں کو بِلوں کی ادائیگی سے روک دے، ہُنڈی کے ذریعے رقم بھجوانے کی ترغیب دے، قوانین سے رُو گردانی کا سبق دے، جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مقولے کا حامی ہو۔ کیا ایسے شخص کو ملک اور 20کروڑ عوام کی تقدیر حوالے کر دی جائے۔آخر ایک بندہ سارے سماج کی قدروں کو کیسے ملیامیٹ کرسکتا ہے کہ جو اُس کے خلاف صف آرا، جو جج قانون کے مطابق فیصلہ کرے اُس پر شک، جس پولنگ اسٹیشن سے یہ ہار جائیں وہاں کاعملہ بے ایمان اور لیکن ان سب حرکتوں اور بیان بازی کا منطقی انجام بھی ہوگا جو انتخابات میں سامنے آئے گا لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسے رویوں کے حامل افراد تنہا رہ جاتے ہیں۔

.
تازہ ترین