مسلمان اس وقت بڑے پر آشوب دور سے گزر رہے ہیں مشرقِ وسطیٰ شکست و ریخت کا شکار ہے۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی کش مکش نے عرب دنیا کو بانٹ دیا ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔مسلم ممالک میں چند ممالک چھوڑ کر ہر جگہ آمریت اور ملوکیت کا راج ہے۔ اس استبدادی آمریت کے خلاف جو کوئی اٹھتا ہے اسے بڑی بے رحمی اور بے دردی سے کچل دیا جاتا ہے۔ جو لوگ اس آمریت کے خلاف جمہوری جدو جہد کرتے ہیں ان کے جلسے اور جلوس ٹینکوں اور بلڈوزروں سے کچل دئیے جاتے ہیں انہیں گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ مصر کے جنرل سیسی اور شام کے اسد نے ایسا کر کے عملاً دکھا دیا ہے۔ اسی آمریت نے انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ مغربی ممالک نے بھی مسلم ممالک میں بیجا مداخلت کر کے مسائل کو مذید گھمبیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس کے ردِعمل میں مزید انتہا پسند گروہوں نے جنم لیا ۔ ان گروہوں کی خانہ جنگی سے مسلم دنیا خون سے لالہ زار ہو گئی ہے عوام نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں کچھ باشندوں نے یورپ کا رخ کیا ہے۔ چونکہ دہشت گردی کے کچھ واقعات یورپ میں بھی ہوئے ہیں اس لیے یہاں کے باشندوں میں بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھی ہے۔ یورپ میں جو نسل پرستانہ رجحانات پائے جاتے تھے۔ اس میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈنمارک، فرانس، جرمنی اور چند دیگر ممالک میں انتہا پسند اور نسل پسند پارٹیاں انتخابات میں بھی قوت پکڑ رہی ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص پر عام لوگوں نے اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا دنیا انتہا پسندوں کے نرغے میں ہے اب یورپ میں جو قانون سازی ہو رہی ہے اس میں ایک طرح کی انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ اس میں عام مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔ کہیں حجاب و نقاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جرمانے کیے جا رہے ہیں۔ کہیں مسلمان بچیوں کو سکولوں میں لڑکوں کے ساتھ نہانے پر مجبور کرنے کے قوانین بن رہے ہیں۔ اسی طرح مساجد کے متعلق سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ پابندیاں رواداری کے نام پر لگائی جا رہی ہیں گویا عدمِ برداشت کا نام رواداری رکھ دیا گیا ہے۔ مسلمان یہاں روزگار کے سلسلے میں آئے تھے انہوں نے سخت محنت کر کے اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے پیٹ پالے۔ لیکن بد قسمتی سے اپنی اولادوں کی وہ تربیت نہ کر سکے جو درکار تھی۔ نتیجتاً نئی نسل جرائم میں ملوث ہونے لگی ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ جرائم میں مسلمان پیش پیش ہیں۔ جیلوں میں تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ ہم یہاں بھی نسلوں علاقوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ہم ذات برادری اور فرقہ واریت اور آپس کے لڑائی جھگڑوں میں مبتلا ہیں اور دوسری طرف مقامی لوگوں سے ہمارے تعلقات استوار نہیں ہیں۔ ہمارے اپنے محلے ہیں اپنے ڈاکٹر، فارماسسٹ، حجام اور دکاندار ہیں ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں ظاہر ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کے خلاف غلط فہمیاں اور دوریاں ہی پیدا ہوں گیں۔ان حالات میں مسمانوں کیلئے کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے؟ اس کیلئے ہمیں ٹھنڈے دماغ سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ کرنے کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم معاشرے سے کٹ کر نہ رہیں ہم جتنا معاشرے سے کٹ کر رہیں گے اتنی ہی نفرت ہمارے خلاف جنم لے گی اور دوسرا بڑا کام یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو ہر گز نظر انداز نہ کریں یاد رکھیں اگر ہم فراڈ کریں گے جھوٹ اور دغا بازی سے کام لیں گے تو اس سے ایک طرف ہم اپنی آخرت برباد کریں گے دوسری طرف اپنے بچوں کیلئے بدترین مثال بنیں گے۔ وہ بھی یہی کام کر کے معاشرے میں برا نام پیدا کریں گے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھے گی لیکن اس عمل میں رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس اگر ہمارا اخلاقی معیار بلند ہوگا۔ تو لازماً اس کا مثبت اثر معاشرے کے ساتھ ساتھ ہمارے بچوں پر بھی پڑے گا۔
اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں بڑی طاقت ہے۔ یہ آج بھی عام لوگوں کے دل میں گھر کر سکتی ہیں اسلام کوئی چھپانے کی چیز نہیں ہے یہ پوری انسانیت کیلئے ہے۔ یہی اسلام پوری انسانیت کی بقا کا ضامن ہے۔ اس لیے ربِ کائنات نے مسلمانوں کی ڈیوٹی لگائی ہےکہ اس کا پیغام ساری مخلوق تک پہنچایا جائے بوسنیا کے حالات سے سبق حاصل کریں۔ انہوں نے اسلامی تعلیمات کو بھلا دیا تھا۔ ان پر انتہا پسندی کا الزام نہیں تھا وہ دہشت گرد بھی نہیں تھے۔ لیکن روشن خیال زمانے میں روشن خیالوں کے ہاتھوں روشن خیال خطہ ارض یعنی یورپ میں نیست و نابود کر دیئے گئے اور ساری مہذب دنیا دیکھتی رہ گئی۔ اس میں معذرت خواہ طبقے کیلئے بڑا سبق ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہو گا ظلمت کے اس ماحول میں امید کی کرنیں بھی موجود ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال ہی لےلیں۔ جونہی یہ شخص منتخب ہوا ہے اس کے خلاف مظاہروں کا ایک لامتناعی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے انتہا پسند اقدامات کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے کے خلاف آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپ سمیت امریکہ بھر میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف ظلمت کا ہی راج نہیں ہے روشنی کے بڑے بڑے دئیے بھی موجود ہیں اتنی بے حسی نہیں ہے اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہمیں ان سے ربط بڑھانا چاہیے۔ جہاں بھی موقع ملے ان سے ملنے کی کو شش کریں۔ اگر ہمارا رابطہ رہے گا تو بہت سی غلط فہمیاں خود بخود دور جائیں گیں ہم سیاسی جماعتوں میں حصہ لے کر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموں میں معاونت کر سکتے ہیں۔ بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جو ہمارے ہی نظریات کو فروغ دے رہی ہیں مثلاً فیملی ٹرسٹ جو خاندانی نظام کی بقا کے لیے سر گرم ہے۔ یورپ میں خاندان کا تصور مٹ گیا ہے۔ اس کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑ رہا ہے یہ ٹرسٹ خاندانی نظام کے احیاء کیلئے متحرک ہے۔ ہم اس کام میں شریک ہو سکتے ہیں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اسے اپنا سمجھ کر اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ جب ہم اپنے گلی محلے کی فکر کریں گے۔ تو ہمارا معاشرے پر مثبت اثر پڑے گا چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں ہم گاڑی سلیقے سے پارک کریں تاکہ دوسروں کیلئے بھی جگہ بن سکے۔ صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ اپنے غیر مسلم ہمسایوں کی بھی خبر گیری کریں۔ مختلف مواقع پر انہیں ہدیے بھی دیے جا سکتے ہیں۔ کبھی کبھار انہیں چائے پر بلا سکتے ہیں۔ بیمار کی عیادت بھی کی جا سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنا رویہ بدلیں تو مقامی لوگوں کی معقول تعداد کو ہم اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں۔ اسلام بھی ہمیں اسی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے لیکن ہم نے اسلام کو بہت محدود کر دیا ہے ہم نے معاملات کو اسلام سے خارج کردیا ہے اسے صرف عبادات تک محدود کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام کی برکات نظر نہیں آتیں چونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسی میں پوری انسانیت کی فلاح ہے ہماری فلاح اور بقا کا دارو مدار بھی اس پر عمل کرنے اور پھیلانے پر ہے اس لیے ہمیں اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہیں برتنی چاہیے کرنے کا اصل کام یہی ہے۔
.