• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نرگسیت، خودپارسائی، نسلی تفاخر اور احساس ِ برتری کا شکار، اورہر معاملے میں خود کو درست اور اپنی ہر رائے کو قطعی سمجھنے والے عمران خان دراصل ایک ایسے ناراض بوڑھے شخص ہیں جن کی سیاست کی پہچان اب صرف منفی رویوں کو ہوا دینا رہ گئی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر اُنہیں اقتدار نہیں ملتا تو تمام نظام کو گراد یا جائے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ اپنے بل کھاتے سیاسی نظریات کے ساتھ وہ عوام کی نبض شناسی کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اُن کے حالیہ دنوں سامنے آنے والے عوام دشمن اور کرکٹ مخالف بیانات اس حقیقت کادوٹوک ثبوت ہیں۔
عمران خان بہت فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنھوںنے پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل ) کا ایک میچ بھی نہیں دیکھا(اُنھوںنے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس کا نام ’’پی سی ایل ‘‘ ہے ؟)،حالانکہ اس ٹورنا منٹ نے پاکستان اور دیگر ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑدئیے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ فائنل میچ لاہور میں نہ رکھا جائے ، حالانکہ یہ دہشت گردی کے حالیہ حملوں کے باوجود عوام کی پرزور خواہش تھی۔ فائنل سے پہلے عمران خان کی طرف ’’ سےلاہور میں سیکورٹی کی خراب صورت ِحال ‘‘ کے بیان نے کچھ غیر ملکی کھلاڑیوں کو خوف زدہ کردیا اور یوں پاکستانی شائقین کرکٹ ان عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں کو اپنے میدان میں کھیلتے دیکھنے سے محروم ہوگئے ۔ صرف یہی نہیں، اُنھوںنے لاہور فائنل کھیلنے والے غیر ملکی مہمان کھلاڑیوں کے لئے ’’پھٹیچر ‘‘ اور ’’ریلو کٹا‘‘ جیسی توہین آمیز اصطلاحات استعمال کیں۔ عمران خان کا اصرارہے کہ پی ایس ایل پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کاراستہ ہموار نہیں کرے گا۔ یہاں ایک بار پھر وہ ہمیشہ کی طرح غلط ثابت ہوئے ۔ میچ کے کامیاب انعقاد کے بعد انٹر نیشنل سیکورٹی ماہرین ، جنہوںنے فائنل میچ اور اس کے لئے کئے گئے سیکورٹی انتظامات اپنی آنکھوںسے دیکھے تھے ،نے لاہور کو کھیل کود کی سرگرمیوں کے لئے ’’محفوظ شہر ‘‘ قرار دیا۔ یہ بھی اعلان کیا گیا کہ آنے والے ستمبر میں آئی سی سی الیون چند ایک میچ کھیلنے لاہور آئے گی۔
انڈیا سمیت دنیا بھر کے کرکٹ ماہرین، شائقین اور کرکٹ سے محبت کرنے والے افراد نے پی ایس ایل کی تعریف کی اور لاہور میں فائنل کے انعقاد کے فیصلے کو سراہا۔ اُنھوں نے بیک زبان اسے ایک تاریخی پیش رفت، اور پاکستان میں آٹھ سالوں کے بعد انٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی کے لئے ایک سنگ ِ میل قرار دیا۔ان آٹھ سالوں کے دوران نہ صرف پاکستان کے کرکٹ ٹیلنٹ کو نقصان پہنچا بلکہ ٹیم کی عالمی درجہ بندی بھی متاثر ہوئی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ذی فہم شخص نے عمران کے رویے کی مذمت کی ، لیکن تاحال اُنھوںنے اپنی عوام دشمن اورکرکٹ مخالف اشتعال انگیزی پر نہ تاسف کا اظہار کیا ہے اور نہ ہی معذرت کی ہے ۔ خیر غلطی ، جوکسی بھی انسان سے ہوسکتی ہے، پر معذرت وہی کرتا ہے جو خود کو عقل کل نہ سمجھے اور جو اناپرستی کے خول سے باہر آنے پر قادر ہو۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست مکمل طور پر عوامی مقبولیت پر انحصار کرتی ہے ، اور اُنھوں نے متعدد بار عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہوکر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی ہے ۔لیکن کیا کیا جائے جب سوار کی آنکھوںپر نرگسیت کی پٹی بندھی ہوئی ہو۔ ذرا سوچیں ، اُن کی سیاسی مہم جوئی کی راہ وہی ہے جس پر اُن کی اپنی شخصیت ایک بھاری پتھر بن کر مزاحم ہے ۔ عمران خان نے 1990 ء کی دہائی میں میدان ِ سیاست میں قدم رکھا۔ اُس وقت اُن کے توشے میں کرکٹ سے حاصل کردہ مقبولیت کی کرنسی موجود تھی ،لیکن وہ کوئے سیاست میں ادھر اُدھر بھٹکتے پھرے یہاں تک کہ اسٹیبلشمنٹ نے مبینہ طور پر اُن پر دست ِ شفقت رکھا اور 2013ء کے انتخابات میں اپنا امیدوار بنا کر میدان میں اتار دیا۔ تاہم جب انتخابات کے دوران ایجنڈا پور ا نہ ہوا تو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اُنہیں انقلابی لیڈر کی صورت ٹکسال کرکے دھرنا دینے کے لئے اسلام آباد روانہ کردیا۔نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے پہلے 2014ء اور پھر 2016 ء میں اسلام آباد پر یلغار کی گئی ۔ تاہم عوام نے خاں صاحب کی کوشش ناکام بنا دی۔
اسٹیبلشمنٹ کی ہائی کمان میں تبدیلی نے سابق افسران کی پالیسیوں کو تبدیل کردیاتو مایوسی اور پریشانی کے جم ِ غفیر نے خاں صاحب کے دل ودماغ پر دھرنا دے دیا۔ اب وہ کبھی عدلیہ پر دبائو ڈالنے کی کوشش میں ہیں تو کبھی الیکشن کمیشن کو دھمکاتے دکھائی دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ کوعمران خان نے دوحوالوں سے دبائو میں لانے کی کوشش کی ۔ ایک تو اُنھوںنے الزام لگایا کہ نئے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار صاحب کی ’’ہمدردی اور تعلقات ‘‘ شریف برادران اور پی ایم ایل (ن) کی طرف ہیں، حالانکہ موجودہ قوانین کے تحت چیف جسٹس کی تقرری میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تاہم خان صاحب کے بیان کا دبائو محسوس کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب کو پاناما کیس کی سماعت سے خود کو الگ کرنا پڑا۔ اس کے بعد خان صاحب کی طرف سے وارننگ آئی کہ وہ پاناما کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس کھوسہ بنچ کا بائیکاٹ کریں گے۔
اگر اس نے فوری طور پر وزیر ِ اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے (خاں صاحب کی خواہش کے مطابق) کی بجائے الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن آف انکوائری مقرر کرنے کا طریق ِ کار اختیار کیا۔ یہ وارننگ ایک غیر معمولی حرکت بھی تھی اور اشتعال انگیز بھی ، لیکن جج صاحب نے عمران خان کو توہین ِعدالت کا نوٹس بھجوانے کی بجائے اس دھمکی کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔ اس کا مطلب ہے کہ دھمکی کسی نہ کسی حد تک کارگر رہی ۔ ان حالات میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر فیصلے میں بھی عوامی مقبولیت کی دھمکی کو ملحوظ خاطر رکھا گیاتو یہ آئین اور قانون کے خون کے مترادف ہوگا۔
عمران خاں الیکشن کمیشن کو بھی اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سوا حکومت اور اپوزیشن میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے جوڈیشل کمیشن، جس کی سربراہی جناب جسٹس ناصر الملک کے پا س تھی، کی تجویز کی روشنی میں اگلے انتخابات کے لئے اصلاحاتی ایجنڈا طے کرنے کے لئے مل کر کام کیا ۔ وفاقی وزیر، اسحاق ڈار اور زاہد حامد کی صدارت میں 33ارکان پارلیمنٹ کی کمیٹی کی کم و بیش ایک سو میٹنگز ہوچکی ہیں تاکہ بہتر آئینی ترامیم کے ذریعے انتخابی عمل میں مزید شفافیت لائی جائے ۔ اس دوران تعاون کی بجائے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے افسران کی توہین کے علاوہ ایک سو اعتراضات پیش کئے ۔ اب عمران خان الیکشن کمیشن کے خلاف گلیوں میں احتجاجی مظاہرے کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دراصل اب عمران خان، جو کبھی ایک شہرت یافتہ کرکٹر اور پھر ایک سیاست دان تھے ، تاثر ملنے لگا ہے کہ ایک برہم مزاج بوڑھے شخص کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ اُن کی سیاست منفی حربے استعمال کرنے کی ’’حدود ‘‘ سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔



.
تازہ ترین