افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر امریکی جنرل نکسن نے کہا ہے کہ’’ پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک میں شدت پسندوں کے درمیان نیا اتحاد امریکہ کیلئے سنگین خطرہ ہے، شدت پسند اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، امریکہ نے 98؍تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے جس میں سے 20؍تنظیمیں اس خطے میں موجود ہیں، ایسا دنیا کے کسی خطے میں نہیں، القاعدہ اور دولت اسلامیہ (داعش) کسی ملک تک محدود نہیں وہ دنیا بھر میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کیخلاف کارروائی کا مشن رکھتے ہیں۔‘‘امریکی جنرل نے اپنے مذکورہ بیان میں شدت پسند تنظیموں کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں وہ قابل بھروسہ ہیں تاہم انہوں نے اپنے بیان میں شدت پسند تنظیموں کے پس منظر اور پیش نظر کے حوالے سے جو تجزیہ کیا ہے وہ نامکمل ہے جس کا دوبارہ جائزہ اور تجزیہ کیا جانا ضروری ہے۔ جنرل صاحب کو اپے تجزیئے کی بنیاد ’’عمل اور ردعمل‘‘ کو بنانا چاہئے تھا، کیا وہ اس حقیقت سے انکار کریں گے کہ بیت المقدس اور فلسطین پر اسرائیل جبکہ مقبوصہ کشمیر پر بھارت نے برسوں سے جو قبضے کر رکھے ہیں اس سے عالم عرب اور جنوبی ایشیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں علاوہ ازیں کیا یہ بات درست نہیں کہ بھارت اور اسرائیل کو ان ناجائز قبضے برقرار رکھنے کیلئے امریکہ کی جانب سے اسلحہ کی سپلائی سمیت ہرطرح کی حمایت حاصل ہے ۔ جب تک امریکہ اور برطانیہ، فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات حل کرانے کیلئے مددگار یا ثالث نہیں بنیں گے دنیا میں قائم نہیں ہوسکتا۔دوسرا سوال یہ ہے کہ 2001ء میں امریکی کمانڈ میں نیٹو کے 40؍ممالک کی افواج نے افغانستان پر حملہ کیا، بعدازاں 2003ء میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج عراق پر بھی حملہ آور ہوگئیں، کیا ان اتحادی ممالک کے اس وقت کے یا ان کے بعد کے حکمراں غیر جانبدار عالمی کمیشن یا عدالت کے سامنے ان حملوں کا جواز سچا ثابت کرسکے اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو پھر گزشتہ 15؍برس سے افغانستان اور 13؍برس سے عراق پر حملہ آور فوجیں جو کررہی ہیں اس کا ذمہ دار اور مجرم کون ہے؟ 11؍ستمبر 2001ء کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر جو خود فضائی حملے ہوئے وہ یقیناً افسوسناک تھے، مسلم ممالک کے تمام حکمرانوں نے ان حملوں کی مذمت کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا مگرامریکی صدر نے کسی شفاف تحقیقات کا انتظام اور انتظار کئے بغیر افغانستان پر بمباری شروع کردی، افغانستان پر حملے کو پہلے ’’صلیبی جنگ‘‘ کہا گیا بعدازاں اس جنگ کو ’’انسداد دہشت گردی کی جنگ‘‘ کا نام دے دیا گیا، 15؍برس گزرجانے کے باوجود یہ جنگ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی۔ جبکہ بگرام، ابوغریب اور گوانتانا موبے کے قید خانوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز اور شرمناک سلوک اب بھی جاری ہیں۔بہرحال جنرل نکسن کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کارپٹ بمباری سے پھول نہیں اگتے، جہاں خون کی ندیاں بہائی جائیں گی وہاں سے انتقام کا لاوہ ہی نکلے گا، بہتر ہوگا کہ پرتشدد تنظیموں کی تعداد بتانے کے بجائے ان کے وجود میں آنے کے جواز اور اسباب کا خاتمہ کیا جائے جس کے بعد یہ تنظیمیں ازخود دم توڑ جائیں گی، مداخلت کی پالیسی ترک کرنا ہوگی، نیو ورلڈ آرڈر اور ڈومور کی طفلانہ تکرار چھوڑنا ہوگی تاہم اس کیلئے تحمل، برداشت، انصاف اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔
.