وطن عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے جہاں دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، وہیں حساسیت اور احساسِ محرومی کے نام پر سیاسی بازی گر، قومیتوں کے دانشور اپنے اپنے گر آزمانے کے لئے کوشاں ہیں، لیکن ہمارے ملک کا بڑا المیہ یہ ہے کہ جس قوم کے لئے وطن عزیز 14اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر اُبھرا، وہ آج بھی اپنی قوم کو تلاش کررہا ہے۔
یہ مختصر سی تمہید اِس لئے باندھی گئی کہ روزنامہ جنگ کے صفحہ ادارت پر سندھی ادب و زبان اور قوم کے کہنہ مشق دانشور جناب جی این مغل صاحب کا گزشتہ کالم نظر سے گزرا، جس میں انہوں نے ایم کیو ایم کے ایک مبینہ گروپ کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی جانے والی آئینی درخواست پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کم و بیش سات سندھی نوجوانوں کا ذکر خیر فرمایا لیکن وہ اس کی وضاحت نہ فرما سکے کہ ان نوجوانوں کا تعلق سندھ کے کس قوم پرست گروپ سے تھا۔ انہوں نے ایک سندھی اخبار کی خبر کا بھی تذکرہ کیا جس میں کسی سول سوسائٹی کے (ان کے مطابق) نمائندوں نے جو اصلاحات تجویز کی ہیں، ان پر وہ بہت خوش نظر آرہے تھے جبکہ انہی سات نوجوانوں میں سے ایک نوجوان ایم کیو ایم کی پٹیشن اور اس دعوے سے بقول مغل صاحب، خوفزدہ تھا کہ کیا ہم ایک بار پھر کالونی بننے جا رہے ہیں؟ جس پر جی این مغل صاحب نے درست طور پر اس کی رہنمائی فرمائی اور کہا کہ آپ ان کی باتوں میں نہ آئیں اور انتظار کریں لیکن جو دوسرا نوجوانوں کا گروپ تھا جو چھ نفوس پر مشتمل تھا، وہ اس بات پر بہت خوش تھا کہ کراچی کی سول سوسائٹی نے یہ تجویز دی ہے کہ پنجاب کی بالادستی کو ختم کرکے قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں 45فیصد تک محدود کردی جائیں لیکن دوسری جانب وہ اس تجویز کے بھی حامی نظر آئے کہ (بقول ان کے) اصل سندھی باشندوں کے لئے سندھ اسمبلی کی 55فیصد نشستیں مختص کی جائیں جبکہ کالم نگار یہ تجویز دیتے نظر آئے کہ قومی اسمبلی کی 342 میں سے 50فیصد نشستیں براہِ راست انتخابات کے ذریعے پر کی جائیں جبکہ باقی 50فیصد متناسب نمائندگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کو تفویض کی جائیں۔
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ سندھ کی محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے 1973ء کے آئین میں جس مراعاتی جمہوریت کا تعارف پاکستانی قوم سے کرایا گیا، اور اس میں 40فیصد شہری سندھ جبکہ 60فیصد دیہی سندھ کا حصہ اس لئے مختص کیا گیا کہ سندھ کے دیہی علاقوں کی محرومی کو ختم کیا جائے۔ ایک جانب پنجاب کی بالادستی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تو دوسری جانب سندھ کے نام نہاد اصل باشندوں کی بالادستی کو قائم کرنے کی تجویز دی گئی۔ یہاں نام نہاد کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ اصل اور غیر اصل باشندوں کی جو تفریق ہے، یہ وہ ہتھیار ہے جو قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کو قوم نہ دے سکا۔ جمہوریت میں نشستیں بھیک میں مانگ کر نہیں لی جاتیں بلکہ یہ رائے دہندگان کی عددی اکثریت کی حمایت کے بل پر حاصل کی جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مردم شماری کے حوالے سے جو آئینی درخواست عدالت عظمیٰ کے روبرو آئی ہے اس میں بھی چند مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں کے فریق بننے کا مژدہ سنایا گیا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ مداخلت بھی نسلی و لسانی تفریق کی بنیاد پر ہونے جا رہی ہے۔
اگر ہمارے وہ قلمکار اور دانشور حضرات جو اپنے آپ کو طبقاتی جنگ کا حصہ بنائے ہوئے ہیں، اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو پاکستانی قوم کی تشکیل نو کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ ایک جانب نیشنل ایکشن پلان کے زیر اثر ایک نئے اور مؤثر قومی بیانیے کی تشکیل کے لئے ہم کوشاں ہیں جس میں ہم قوم کی صحیح سمت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔ وہ غلط نظریات جنہوں نے ملک کو نہ صرف نسلی و لسانی تفریق کی طرف دھکیلا بلکہ دین کو بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعے نقصان پہنچایا، آج ہمیں بحیثیت مسلمان ہمیں دین کی صحیح اور درست تشریح کے لئے کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ مدارس اور مساجد جو ہمارے معاشرے میں کلیدی اہمیت کے حامل تھے، آج متنازعہ بن چکے ہیں۔ 24گھنٹے کھلی رہنے والی یہ درسگاہیں اور مساجد اب صرف نماز کے اوقات میں ہی کھولی جاتی ہیں۔ ان تمام معاملات کے پیچھے ہماری یہی سوچ کارفرما ہے کہ ہم اپنی ذات، نسل اور فرقے کے اندر رہ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو یقینا ایک بڑا قومی المیہ ہے۔ عمومی طور پر سول سوسائٹی کی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ یہ وہ طبقہ ہے جو سماجی رشتوں اور اقدار کی نہ صرف پاسداری کرتا ہے بلکہ اس کی صحیح عکاسی اور ترجمانی کا باعث ہے لیکن جس سول سوسائٹی کا ذکر موصوف کالم نگار نے کیا اور جن اداروں کا ذکر ہوا وہ صرف دو ماہ کے لئے متحرک ہوتے ہیں جب ان اداروں میں انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ وہ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، جیتتے ہیں اور اداروں کو ملنے والی مراعات پر قابض ہو جاتے ہیں۔ یہ نہ معاشرے کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں نہ درست ترجمانی۔ بنیادی طور پر تو مغل صاحب کو وہ فارمولا پیش کرنا چاہئے تھا جس کی بنیاد پر یہ منتشر قوم ایک متحد، یکجا اور یکسو قوم کی شکل اختیار کرسکتی لیکن ان کی زیر بحث نگارش پاکستان میں بڑھتی ہوئی تقسیم اور نفرت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ پنجاب اپنی اُس بالادستی کی بنیاد پر جس کا ذکر ان کے کالم میں کیا گیا، 70ء کی دہائی سے لے کر اب تک حکومت کر رہا ہے تو سندھ کے اصل باشندے ان کی کالونی تو نہ بن سکے لیکن وہ افراد جن کے اجداد نے اِس وطن کو حاصل کرنے کی قیمت دسیوں لاکھ جانوں کی شکل میں دی، ان کی حکومت سے وہ نو آبادیاتی دور میں واپس چلے جائیں گے؟ یہ کیسی نفرت ہے جو ہمیں نہ ایک قوم بننے دے رہی ہے اور نہ ہی ایک ملت۔ معز ز کالم نگار نے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار کا تعارف بھی ایک گجراتی میمن کی حیثیت سے کروایا، جبکہ وہ اپنا تعارف بھی مغل کرانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ افسوس، صد افسوس کہ ہم مغل ہیں، گجراتی میمن ہیں، اصل سندھی باشندے ہیں، بالادست پنجابی ہیں، غیرت مند پختون ہیں اور مشتعل بلوچ ہیں۔ ہم سرائیکی ہیں، ہم کشمیری ہیں، ہم گلگت بلتستان کے فرزند ہیں، اگر ہم نہیں ہیں تو صرف اور صرف پاکستانی نہیں ہیں۔ اگر کسی کو آئینی درخواست میں فریق بننا ہے تو وہ مثبت اور کھلے ذہن کے ساتھ آئے اور ان تحفظات کے خاتمے کا بھی ذریعہ بنے جو ایم کیو ایم پاکستان کو ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ وہ اپنے تحفظات بھی دور کرنے کے لئے کوشش کرے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم پاکستانی بن کر سوچیں گے۔ اگرہم اپنی انا کے خول میں رہ کر کبھی اصل اور کبھی قدیم باشندے بن کر غیر جمہوری انداز میں اپنے غیر قانونی مفادات کا تحفظ کریں گے تو نہ تو ترقی کی راہ پر ملک چلے گا اور نہ ہی جمہوریت پنپ سکے گی۔
.