• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو کبھی کبھی کچھ کچھ ضرور ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو وہ اپنے ہی طبقے کے خلاف زہر اور آگ اگلنے کے ساتھ ساتھ انہیں ڈرانے بھی لگتے ہیں۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھانے یا یوں کہہ لیجئے کہ گھر کا چراغ گھر کو جلانے کے لئے کبھی حبیب جالب کی شاعری کا سہارا لیتا ہے تو کبھی کبھی سیدھی سادی نثر میں اشرافیہ پر لعنت بھیجنے لگتا ہے جس کی تازہ ترین مثال مندرجہ ذیل بھاپ چھوڑتے بیانات ہیں مثلاً ......’’طالبات کے وظائف کے مخالفین کی سوچ پر لعنت، اشرافیہ کا رویہ نہ بدلا تو پسا ہوا طبقہ وسائل چھین لے گا۔ یہ ملک جج، جرنیل یا سیاستدان کے بچوں کے لئے نہیں عام آدمی کے لئے بنا تھا۔‘‘’’اشرافیہ کو غریبوں کا خیال نہیں۔ مٹھی بھر لوگ وسائل پر قابض ہیں۔ قوم کی بیٹیوں کو وظائف دینے پر تنقید کرنے والوں کی سوچ پر لعنت‘‘’’اشرافیہ فلاحی پروگراموں پر تنقید روکے ورنہ انقلاب میں سب کچھ بہہ جائے گا‘‘’’90فیصد پاکستانیوں کے پاس وسائل نہیں۔ ظلم و زیادتی کا نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا‘‘شہباز شریف کا اپنا تعلق بیک وقت دو قسم کی اشرافیہ سے ہے۔ اول، کاروباری اشرافیہ دوم سیاسی اشرافیہ لیکن یقیناً نیتوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے اور کسی کو کسی کی نیت پر شک کا کوئی حق نہیں۔ فیس ویلیو پر ہی لینا چاہئے اور یوں بھی انسانی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے طبقہ سے ’’غداری‘‘ کی اور عوام کی محرومیوں کے خاتمہ کے لئے ان کا ساتھ دیا۔ کبھی کبھی کچھ کیسز میں مسائل نفسیاتی بھی ہوتے ہیں اور تضادات کے پیچھے مخصوص حالات انسان کو الٹتے پلٹتے رہتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے والد سر شاہنواز بھٹو بہت بڑے جاگیردار اور پشتینی رئیس تھے جبکہ ان کی والدہ محترمہ کا تعلق عام گمنام گھرانے سے تھا یعنی HUMBLE BACKGROUNDاور بھٹو صاحب کے بارے مشہور تھا کہ جب کبھی ان کے اندر سے جاگیردار باپ کا بیٹا برآمد ہوتا تو وہ جے اے رحیم جیسے قابل احترام شخص کو بھی بے رحمی اور سفاکی سے پٹواتے، معراج محمد خان جیسے جینوئن انقلابی کا لحاظ بھی نہ کرتے، مختار رانا پر بھی رحم نہ کھاتے لیکن جب ان کے اندر سے مظلوم، مہربان، لوئر مڈل کلاس کی ماں کا بیٹا بھٹو باہر نکلتا تو وہ محروموں، مظلوموں، مجبوروں کے لئے آبدیدہ ہو جاتے اور ان کے لئے کچھ بھی کر گزرنے پر تل جاتے۔شہباز شریف کا کیس ذرا مختلف ہے اور بے حد دلچسپ بھی۔ وہ بیک وقت ایک سیلف میڈ مزدور باپ کا بیٹا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے باپ کا بیٹا بھی ہے جو مزدوری سے ایک بڑی فونڈری اور کاروبار کی ملکیت تک پہنچا سو میرا خیال ہے جب کروڑ پتی باپ کا بیٹا اندر سے نکلتا ہے تو سخت گیر، درشت، بات بات پر ’’معطل‘‘ کرنے والا، ضرورت سے زیادہ پروٹوکول اور تام جھام کا دلدادہ، ’’فیشنی‘‘ ملبوسات کا شوقین نظر آتا ہے لیکن جب ’’متمول میاں شریف‘‘ کی جگہ مزدور کا بچہ اندر سے نکلتا ہے تو روتا بھی ہے، کیچڑ میں بھی گھس جاتا ہے، حبیب جالب کو بھی گاتا ہے، خونی انقلاب کی دھمکیاں چتائونیاں بھی دیتا ہے، اشرافیہ سے لاتعلقی اختیار کر کے ان کی سوچوں پر لعنت بھی بھیجتا ہے۔ دونوں شہباز شریف اپنی اپنی جگہ ’’سچے‘‘ ہیں لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ دونوں میں سے ’’ڈومینیٹ‘‘ کون کرتا ہے۔ غالب کون رہتا ہے۔ سوچنا یہ بھی ہو گا کہ اتنے طویل اقتدار اور تجربے کے باوجود صوبے میں آج تک کوئی جوہری تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ مصنوعی لاہور میں مثبت تبدیلیوں کا اعتراف لیکن اصلی لاہور کا والی کون؟ یہ بھی درست ہے کہ گزشتہ چند مہینوں سے پنجاب حکومت کی مخصوص ترجیحات میں کچھ تبدیلی سی محسوس ہو رہی ہے لیکن نتیجہ؟ تعلیم اور صحت ہی نہ ہو تو اوور ہیڈز، انڈر پاسز، میٹروز، اورنج ٹرینوں کی ہنڈیا چڑھانی ہے؟ انہیں چولہے میں جھونکنا ہے؟آخری بات جو وزیر اعلیٰ کو جتنی جلد سمجھ آ جائے بہتر ہو گی بشرطیکہ واقعی سیریس ہوں کہ انسانی تاریخ میں ’’اشرافیہ‘‘ عموماً غیر انسانی رویوں کی حامل رہی ہے۔ یہ لاتوں کے وہ بھوت ہیں جو باتوں سے نہیں مانتے بادشاہو! یہ وہ ٹیڑھی دُمیں ہیں جو 100سال بھی لوہے کی نالی میں رکھی جائیں تو سیدھی نہیں ہوتیں۔ تقریریں اور تحریریں عادتیں نہیں بدل سکتیں خصوصاً ان کی جن کے جبڑے انسانی خون کی لذت کے عادی ہو چکے ہوں ورنہ دنیا میں اتنے خونی انقلابوں کی بھلا کیا ضرورت تھی؟اس سڑانڈ یافتہ سسٹم میں بہت ہی بنیادی جوہری قسم کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ خود رول ماڈل بننے کا ڈول بھی ڈالنا ہو گا۔ شہباز شریف کو دل بڑا اور کڑا کر کے فیصلہ کر لینا چاہئے کہ وہ ہیں کس کے ساتھ؟ عوام کے یا اشرافیہ کے ساتھ؟ المیہ ان کا یہ ہے کہ ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لینا چاہتے ہیں جسے چپڑی ہوئی اور دو دو بھی کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ بھی ناقابل تردید ہے کہ دو بیڑیوں کا سوار پار اترتے کسی نے نہیں دیکھا۔ کنفیوژن سے نکلیں، مخمصہ سے جان چھڑائیں، یہ نہ ہو کہ ’’خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ والی واردات ہو جائے۔ایک اور تلخ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ اشرافیہ کبھی کسی کی ہوتی نہیں عوام کبھی جینوئن محسنوں کو بھولتے نہیں۔ لاہور کی مثال ہی لے لیں۔ اس شہر میں قزلباشوں سے قدیم ’’اشرافیہ‘‘ کون ہو گی جو نادر شاہ جیسے وحشی کے ساتھ آئے۔ لاہور تا دلی کشتوں کے پشتے لگائے۔ بڑی بڑی جاگیریں حاصل کیں۔ سکھ راج آیا تو ان کے سر کا تاج بنے اور جب انگریز نے قبضہ کر لیا تو ان سے بھی خطابات وصولے۔ برا وقت آئے تو اشرافیہ سائے سے بھی پہلے ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ آپ تو خود تجربہ کار ہیں لیکن ایک ٹکٹ میں دو دو مزے والا کام ذرا مشکل ہے۔حیران ہوں شہباز شریف مع ’’بھائی جان‘‘ کب سے اقتدار میں ہیں، لوگوں کے لئے اپنے اپنے انداز میں زار و قطار روتے، چیختے، چلاتے بھی ہیں لیکن عوام مسلسل بد سے بدتر کی طرف جا رہے ہیں تو یہ سب المیہ ہے، مخمصہ ہے یا ڈرامہ ہے؟ بہتر ہے انہی عوام کی طرف لوٹ جائو جن کے اندر سے نکل کر یہاں تک پہنچے ہو ورنہ .......وہ پڑا ہے میاں معمر قذافی اور یہ رہا صدام حسین زرداری!

.
تازہ ترین