لندن(جنگ نیوز)میچ فکسنگ اورکرپشن اسکینڈ ل نے کرکٹ ،فٹبال کے بعد اب ٹینس کو بھی داغدار کردیا ۔ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ومبلڈن سمیت ٹینس کے بڑے عالمی مقابلوں میں اعلیٰ ترین سطح پر مبینہ میچ فکسنگ کے ثبوت موجود ہیں۔برطانوی نشریاتی اداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں 16 گرینڈ سلم چیمپئنز سمیت سرفہرست 50 کھلاڑیوں نے مبینہ طور پر جواریوں کے لیے میچ فکس کئےجن میں 8 کھلاڑی آسٹریلین اوپن میں شرکت کررہے ہیں جبکہ 16 کھلاڑیوں کے اس گروہ میں سے کسی بھی کھلاڑی کو سزا نہیں ہوئی۔دوسری جانب عالمی نمبر ایک نوواک جوکووچ کے جواریوں کی جانب سے 2 لاکھ ڈالر کی پیشکش ہونے کے اعتراف کے باوجودایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلزنے برطانوی نشریاتی اداروں کے الزامات کو مسترد کردیا۔برطانوی نشریاتی اداروں کے مطابق اہم مقابلوں کے دوران ہوٹلوں میں کھلاڑیوں کے کمروں میں جا کر میچ فکسنگ کے لیے 50 ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ رقم کی پیش کش کی جاتی تھی ۔حیران کن طور پرکھیل میں بدعنوانی پرنظر رکھنے والے سیل ٹینس انٹیگرٹی یونٹ (ٹی اے یو) کے پاس میچ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کی شکایات درج ہوئیں لیکن انہیں پھربھی عالمی مقابلوں میں شرکت کی اجازت دی جاتی رہی۔ ان کھلاڑیوں میں سے کچھ گرینڈ سلم مقابلوں کے فاتح بھی رہ چکے ہیں جب کہ 8 کھلاڑی ایسے بھی ہیں جو آسٹریلین اوپن ٹینس ٹورنامنٹ میں بھی شریک ہیں۔رپورٹ میں روس، شمالی اٹلی اور سسلی میں سٹے باز گروہ کی موجودگی سامنے آئی اور تفتیش کاروں کو ان میچوں کے بارے میں بھی پتہ چلا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فکس کیے گئے تھے۔ برطانوی نشریاتی اداروں کو فراہم کی جانے والی دستاویزات میں عالمی ٹینس کی تنظیم ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز کی جانب سے 2007 میں شروع کی گئی تحقیقات کی رپورٹ بھی شامل ہے۔2008 میں ایک رپورٹ میں تفتیشی ٹیم نے کہا تھا کہ ان میچوں میں حصہ لینے والے 28 کھلاڑیوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہییں تاہم وہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔اے ٹی پی نے 2009 میں انسدادِ بدعنوانی کے نئے ضوابط متعارف کروائے تھے لیکن قانونی مشاورت کے بعد اسے یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ اس کے تحت ماضی میں بدعنوانی کی تحقیقات نہیں کر سکتی۔دوسری جانب ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز(اے ٹی پی) کے چیف کرس کرموڈ کا کہنا ہے کہ ٹینس کی انٹیگریٹی یونٹ(ٹی آے یو) اور کھیل سے متعلق حکام کسی بھی ایسے خیال کو رد کرتے ہیں کہ میچ فکسنگ کے ثبوت دبائے گئے یا ان کی مفصل تحقیقات نہیں کی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ برطانوی نشریاتی اداروں کی رپورٹس تقریباً 10 سال پرانے مقابلوں کے حوالے سے ہیں، ہم کسی بھی نئی معلومات پر تحقیقات کریں گے جو ہم ہمیشہ کرتے ہیں۔