2016 ءکی آمد کے ساتھ ہی انڈونیشیا سے لے کر افغانستان تک اور افغانستان سے سعودی عرب تک مسلم امہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا نشانہ بنتی نظر آئی ہے ۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران جس طرح مسلم ممالک دہشت گردی اور انتہاپسندی کا نشانہ بنے اور انقلاب کے نام پر جس طرح مسلم ممالک میں خونی کھیل شروع ہوا وہ اب کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ عوامی انقلاب کے نام پر لیبیا سے لے کر عراق تک جس طرح مستحکم حکومتوں کو ختم کر کے انتہا پسند اور شدت پسند گروہوں کے ذریعے خونی کھیل شروع کیا گیا ۔ وہ آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلم قیادت اور عالمی دنیا حالات کی اصلاح کی طرف توجہ کرتے لیکن مسلم دنیا کے آپس کے اختلافات اور یورپ ، امریکہ اور برطانیہ کے مفادات نے حالات کو ا س نہج پر پہنچا دیا ہے جہاں پر خون ہی خون نظر آ رہا ہے ۔داعش نامی تنظیم ایک ہی دن میں انڈونیشیا سے لے کر افغانستان تک بم دھماکے کرتی ہے اور اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے اور سعودی عرب ، پاکستان اور ترکی کے امن سے کھیلنے کا اعلان کرتی ہے ۔ ان سارے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بغیر کسی توقف کے مسلم قیادت عالمی دنیا حالات کی اصلاح کی طرف توجہ دے ۔ گزشتہ ماہ سعودی عرب کی قیادت نے مختلف اسلامی ممالک کے ذمہ داران سے مشاورت کے بعد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک 34 رکنی عسکری اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا جس میں پاکستان اور ترکی سمیت عالم اسلام کے مختلف ممالک شامل ہیں۔اس اتحاد کا بنیادی مقصد داعش اور اس جیسی انتہاپسند تنظیموں کا مقابلہ کرنا اور مسلم ممالک کو ان کے اثرات سے محفوظ کرنا ہے ۔ اگرچہ اس اتحاد پر بعض ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ صرف سنی ممالک کا اتحاد اور اس میں ایران ، شام اور عراق نہیں ہیں لیکن باخبر ذرائع یہ بتا تے ہیں کہ سعودی عرب اور عرب ممالک اس اتحاد میں ایران ، عراق کو شامل کرنے کو تیار ہیں لیکن ان کی بنیادی شرط ایران ، عراق اور شام کی حکومتوں کی طرف سے کی جانے والی ان تنظیموں کی سرپرستی ختم کرنے کا مطالبہ ہے جو یمن ، شام اور عراق میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر اپنی عسکری کارروائیاں کر رہی ہیں اسی وجہ سے عرب ممالک کا یہ مؤقف ہے کہ اگر یہ 34 ممالک کا اتحاد بلا تفریق تمام انتہاپسند اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کیلئے بنایا گیا ہے اور ان تنظیموں میںا کثریت وہ تنظیمیں ہیں جو اپنے آپ کو سنی کہلاتی ہیں تو پھر کسی اور مکتبہ فکر کی اسی طرز کی تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی سے گریز نہیں ہو نا چاہیے۔ مستقبل اس کا فیصلہ کرے گا کہ کیا عراق ، ایران اور شام ان چونتیس ممالک کے اتحاد کے مؤقف کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ لیکن فی الوقت یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے کہ اگر اسلام اور دین کے نام پر بے گناہ انسانیت کو نشانہ بنانے والوں کا راستہ روکنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیںتو پھر کوئی بھی اسلامی ملک اس خونی کھیل سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ سعودی عرب کی قیادت میںقائم ہونے والے اس اتحاد کا ابھی تک ایک نکتہ واضح ہے اور وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ یہ ہدف کیسے حاصل ہو گا ؟ اور اس ہدف کے حصول میں کس ملک کو کیا کردار اد ا کرنا ہے اس کا تعین ابھی باقی ہے ۔ گزشتہ دنوں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر اور نائب ولی عہد اور وزیر دفاع محمد بن سلمان بن عبد العزیز نے پاکستان کا دورہ کیا اور یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان ایک سعودی شہری کو سزا دینے پر تلخی پیدا ہو چکی تھی اور اس تلخی کے نتیجے میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ کئی عرب ممالک اور بعض افریقی ممالک اپنے سفارتی تعلقات ایران سے ختم کر چکے تھے ۔ اس دورے کا مقصد واضح طور پر تو یہ نظر آتا تھا کہ سعودی قیادت ایران کے مسئلے پر پاکستان کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا اس سے یہ واضح ہوا کہ پاکستان اور سعودی قیادت کے درمیان ایران کے مسئلے سے زیادہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عفریت سے مقابلہ کرنے کی طرف توجہ دینے کا ذکر ہوا ہے اور واضح طور پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 ملکی عسکری اتحاد کی نہ صرف حمایت بلکہ مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا۔ان سارے حالات کے اندر جہاں عسکری اتحاد کے قیام کی ضرورت ہے وہاں فکری اور نظریاتی اتحاد قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے اگر مسلم نوجوانوں کو فکری اور نظریاتی طور پر مضبوط نہیں کیا جائے گا توپھر انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیمیں انہیں اپنے مفادات کیلئے استعمال کریں گی اور اس کے اثرات نہ صرف پوری مسلم دنیا پر بلکہ عالمی دنیا پر پڑیں گے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسلم قائدین کو مسئلہ فلسطین سے لے کر کشمیر تک اور شام کے عوام کے مسائل سے لے کر عراق کے عوام کے مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ دینی ہو گی۔اسی طرح اسلامی ممالک کی قیادت کو اپنی فکری اور نظریاتی گروپوں اور جماعتوں کی دوسرے ممالک میں سرپرستی بھی ترک کرنی ہو گی جس کی وجہ سے ان ممالک کے اندر فسادات پیدا ہوتے ہیں۔
یہ تمام چیزیں وقت اور حالات کا چیلنج بن کر مسلم دنیا کے سامنے آ رہی ہیں اور ان کے حل کیلئے سنجیدگی اور یکسوئی کی ضرورت ہے ۔ اگر ان کے حل کیلئے سنجیدگی اور یکسوئی اختیار نہ کی گئی تو حالات کی خرابی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اور جو مسائل آج باہمی اتحاد سے آسانی سے حل ہو سکتے ہیں ممکن ہیں وہ پھر اتنا آسان نہ رہیں ۔ داعش جیسی تنظیموں کا حل عسکری ، فکری ، نظریاتی اتحاد میں ہے ۔ مسلح جنگ معاملات کی اصلاح میں وہ کردار ادا نہیں کر سکتی جو نظریاتی اور فکری جنگ کر سکتی ہے اور اس کیلئے مسلم حکمرانوں ، علماء ، مفکرین اور دانشوروں کو غور و فکر کرنا ہو گا۔داعش اور اس جیسی انتہاپسند تنظیموں کے حوالے سے تحریر لکھ رہا تھا کہ ہندوستان میں پٹھان کوٹ کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان کے اندر جیش محمد نامی کالعدم تنظیم پر کریک ڈائون اور اس کی قیادت کو حفاظتی تحویل میں لینے کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔ اور میں اس سوچ میں مبتلا ہوںکہ آخر کیا وجہ ہے کہ چند سالوں کے بعد ہندوستان میں کوئی ایک واقعہ ہو جاتا ہے اور اس کا تعلق پاکستان میں کسی نہ کسی تنظیم سے جُڑ جاتا ہے اور اس تنظیم کی قیادت کو نظر بند یا گرفتار کر لیا جاتا ہے اور اس تنظیم کے کارکنوں کو بغیر کسی فکری ، نظریاتی رہنمائی کے ایسے جنگل میں چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں ہر طرف مختلف سوچوں اور فکروں کے مالک لوگ انہیں اپنی ذہنی اور فکری غلامی میں لے کر استعمال کرتے ہیں اور یہ ذہنی اور فکری طور پر غیر مستحکم نوجوان اپنے جسموں پر بم باندھ کر بے گناہ انسانیت کو قتل کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ آخر کب تک اس طرح چلے گا۔کبھی تو ہم سنجیدہ ہو کر کوئی پالیسی اپنائیں گے ۔ پٹھان کوٹ کے واقعہ پر حکومت پاکستان کا مؤقف بڑا واضح ہے ۔ ہندوستان کو شواہد پیش کرنے ہیں اور اب ہمیں عدالتیں لگانے کی بجائے ہندوستان کی طرف سے دئیے جانے والے شواہد پر فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔