• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1947کے قیامت خیز دن ہیں، مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے پاکستان کی طرف رواں ہیں، ہوشیار پور سے ایک ٹرین لاہور کے لئے روانہ ہو رہی ہے، خاندانوں کے جو افراد بلوائیوں کی سنگینوں، تلواروں اور کرپانوں سے بچ گئے ہیں، وہ اپنے خوابوں کی سرزمین پاکستان کو آنکھوں میں بسائے ٹرین میں دبکے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک کاشتکار خاندان کے بچے بچیاں بھی ہیں، ماں نے اپنے چھوٹے بیٹے اور بیٹیوں کو سیٹوں کے نیچے چھپا دیا ہے اور ان پر ایک چادر ڈال کر کلمہ پڑھتی ہے اور ساتھ کہتی جارہی ہے’’اللہ دے حوالے‘‘ رستے میں بلوائی ٹرین پر حملہ کر دیتے ہیں لیکن بلوچ رجمنٹ کا ایک سپاہی اپنی پرانی بندوق تان کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بلوائیوں کو للکارتا ہے۔ بلوائی اس کی دہشت سے اس کے قریب نہیں آتے اور ہمارا ایک سپاہی ٹرین کو بحفاظت اس خطرے سے بچا کر لے جاتا ہے!
بلوچ رجمنٹ کا یہ سپاہی کہاں ہے، ان دنوں پھر اس کی ضرورت ہے! جو مسجدوں، گھروں، امام بارگاہوں اور سڑکوں پر ہمیں بلوائیوں سے بچائے!
ٹرین شدید مصائب اور مشکلات کے بعد لاہور پہنچتی ہے اور اس کے مسافر اپنی بھیگی آنکھوں کے ساتھ سرزمین پر سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔
خدا کے یہ شکرگزار بندے ان دنوں کہاں ہیں، آج ہم ناشکروں کو پھر ان شکرگزار بندوں کی ضرورت ہے۔
مہاجروں کو لاہور کے والٹن کمیپ میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہاں رضاکار دن رات ان کے دکھ بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں، ہر سرکاری ملازم اور رضاکار پوری لگن سے خدمت کرتا نظر آتا ہے، مصیبت، موت، بےسروسامانی، عزیزوں کی جدائی اور بیماری نے اس کیمپ کے باسیوں کو چڑچڑابنادیا ہے مگر بےلوث ورکروں کی دلداری نے ہر آنے والے مہاجر کو ان کا اور پاکستان کا گرویدہ بنادیا ہے۔
یہ سرکاری ملازم اور یہ رضاکار کہاں ہیں؟ ہم ان بے لوث لوگوں سے محروم کیوں ہوگئے ہیں؟
جن بچوں کو ٹرین کی سیٹ کے نیچے چھپا کر پاکستان لایا گیا تھا ان کے والدین ان بچوں کو لے کر لاہور کے قریبی گائوں مراکہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں ملک محمد حیات اور چوہدری بوٹا فرشتوں کی صورت میں موجود ہیں جو ہر آنے والے اجنبی مہمان کے دکھ بانٹنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
ہمیں ملک محمد حیات اور چوہدری بوٹا کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
اس خاندان کا بچہ اپنے گائوں سے چار جماعتیں پاس کرچکا تھا۔ وہ مراکہ کے اسکول کے سامنے کھڑا ہے۔ ماسٹر پوچھتا ہے پڑھنا چاہتے ہو؟ بچہ کہتا ہے ، مگر میرے پاس نہ قلم نہ دوات، نہ قاعدہ ہے نہ کتاب! ماسٹر کہتا ہے فکر نہ کرو یہاں کسی کے پاس بھی کچھ نہیں، سب زبانی زبانی چل رہا ہے اور بچہ اسکول میں داخل ہو جاتا ہے۔
یہ بچہ وظیفے کا امتحان پاس کرتا ہے بلکہ لاہور ڈویژن میں فرسٹ آتا ہے اور پھر اپنے خاندان کے ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ چلا جاتا ہے۔ یہ وہاں قلی کا کام کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے، پاکستان نیا نیا بنا ہے، لوگوں کے اندر ایک عجیب جذبہ ہے، وہ کہتے ہیں ہم نے اپنے ملک کو عظیم بناناہے۔ یہاں اس بچے کو شیخ سردار محمد ملتا ہے جس کا چائے کا کھوکھا ہے، یہ بچہ یہاں کوئلوں کی بھٹی گرم کرنے کا کام کرتا ہے اور سردار محمد اس کی تعلیم کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھنے کےلئے اسے سہولتیں فراہم کرتا ہے۔
ہمیں اس شیخ سردار محمد کو ڈھونڈنا ہے۔
پھر اس ذہین، محنتی اور تعلیم سے لگن رکھنے والے بچے کو ماسٹر شاہ محمد، ماسٹر غلام قادر اور دوسرے کئی لوگ ملتے ہیں جو اسے اپنے نئے ملک پاکستان کا اثاثہ بنانے کےلئے اس کے راستے کے کانٹے چنتے ہیں۔
یہ راستے کے کانٹے چننے والے لوگ کہاں چلے گئے؟
اس دوران اس بچے کے والد کو میونسپلٹی میں چپڑاسی کی ملازمت مل جاتی ہے۔ ایس ڈی ایم علاقے کا بادشاہ ہوتا تھا، اس کے آنے کی خبر سے کہرام سا مچ جاتا تھا، مگر ایک دن ایک عجیب و غریب ایس ڈی ایم ٹوبہ ٹیک سنگھ میں متعین ہوتا ہے۔ یہ بغیر کسی استقبالیہ تقریب کے اسٹیشن سے پیدل خود ہی بلدیہ کے دفتر پہنچ جاتا ہے اور پھر اپنی خدمت کے جذبے سے سارے علاقے کے لوگوں کا دل جیت لیتا ہے، اس ایس ڈی ایم کا نام میاں محمد شفیع تھا۔
مشرقی پنجاب سے ہجرت کرنے والے بچے کی کہانی کا اس فرشتہ سیرت کردار سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن آج اس ایس ڈی ایم سے ہمارا تعلق کیوں ختم ہوگیا ہے۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ یہ بچہ اینگلوورنیکولر کے فائنل امتحان میں پورے ضلع لاہور میں اول آتا ہے اور اسے لارنس کالج گھوڑا گلی میں مزید تعلیم کا وظیفہ مل جاتا ہے۔ اس بچے کی کامیابی پر صرف اس کے اسکول میں نہیں، پورے شہر میں جشن منایا جاتا ہے۔
پھر اس بچے کا ہاتھ علاقے کا تحصیل دار پکڑتا ہے اور اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے....اور آخر میں شیخ محمد یوسف آتے ہیں جو گورنمنٹ کالج لاہور میں اس کے داخلے اور ہاسٹل میں رہائش کا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں....اور اس کے بدلے میں اس سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ اگر زندگی میں کچھ بن جائے تو اسی طرح کم از کم ایک پاکستانی بچے کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرے اور اس کے پیچھے جذبہ یہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے نام سے جو ملک حاصل کیا ہے اس کے نام کو چار چاند لگانے ہیں۔ یہ شیخ محمد یوسف، ظاہر یوسف کے والد تھے۔
اس بچے کا نام چوہدری سردار محمد تھا جو بعد میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر فائز ہوا اور اس کی شادی اسی ایس ڈی ایم کی بیٹی سے ہوئی جو اسٹیشن سے پیدل بلدیہ کے دفتر پہنچا تھا۔ (قندمکرّر)



.
تازہ ترین