• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تخریب کاری ایک عالمی مسئلہ خصوصی تحریر…ڈاکٹر رحیم الحق

موجودہ سائنسی دورمیں جہاں آلات حرب و جنگ و جدل نے انتہائی ترقی کی منازل طے کی ہیں اور مہلک ہتھیار بشمول ایٹم بم ایجاد کئے ہیں وہاں عام افراد کی ہتھیاروں تک رسائی کو آسان بنا دیا۔ ہر قسم کی رائفل، ریوالور،راکٹ لانچر، بم تخریب کاروں کی پہنچ میں ہے۔ کثیر آبادی میں ایک خود کش بمبار شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ حالیہ دہشت گردی کی لہر ساری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک دہشت گردی سے محفوظ نہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین، جاپان اور ہندوستان بھی دہشت گردی سے بچ نہیں سکے۔ مشرق وسطی کے ممالک خصوصاً پاکستان، افغانستان، عراق، شام، ترکی، مصر، لیبیا، یمن میں ہزاروں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور دہشت گردی کی آندھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ جنگ عظیم اول اور دوم پانچ سال کے عرصے پر محیط رہیں، اس کے بعد ویت نام، مشرقی وسطیٰ، عراق، ایران کی جنگیں نسبتاً مختصر عرصے میں ختم ہو گئی تھیں۔ تخریب کاری کی یہ جنگ افغانستان میں روس کے حملے کے بعد شروع ہوئی، جس میں امریکہ نے دخل اندازی کی اور پاکستان و افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں نے جنم لیا جس کی وجہ سےان دونوں ممالک میں کلاشنکوف کلچر پھیلا۔ صدام حسین کے خاتمے کے بعد عراق، شام، کردستان میں داعش نے زور پکڑا اور شام و عراق کے وسیع علاقے پر قابض ہو گئی اور اس کا اثرورسوخ پاکستان سے لیبیا تک پھیل گیا۔ 9/11کے امریکہ پر حملے، جس میں نیو یارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کیا گیا نےدنیا کا سیاسی منظرنامہ بدل دیا اس کے بعد دہشت گرد عناصر ایک مضبوط اور مؤثر تنظیمیں بنا کر مختلف ملکوں میں تخریب کاری کرنے لگے۔ جنگی ماہرین کا خیال ہے کہ تخریب کاری کی یہ جنگ اسلحے کی فراوانی، تخریب کار تنظیموں کے بڑھتے اثرو رسوخ اور ناجائز طریقےسےدولت جمع کرنے کے طریقے ہیںجن میں بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، اسلحہ و ہیروئن اسمگلنگ، عراق میں تیل کے کنوئوں پر قبضہ ٹھیکیداروں سے کمیشن لینا شامل ہے۔ بڑھتی ہوئی تخریب کاری روکنے کا مؤثر طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تخریب کاروں کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے اور اسلحہ کی ترسیل روک دی جائے۔ یہ تخریب کاری 1980ء میں شروع ہوئی تھی اور آج 37سال گزرنے کے بعد بھی اس کی شدت میں کمی نظر نہیں آتی۔ اس جنگ میں پاکستان، افغانستان، عراق، شام، فلسطین طویل عرصے سے ملوث ہیں۔ اس کی مثال سترہویں صدی کی یورپی خانہ جنگی سے دی جا سکتی ہے۔ جس میں یورپ کے 12ممالک شریک ہوئے۔ یہ جنگ 30سال کے عرصے پر محیط رہی اور اس جنگ میں یورپ کی ایک چوتھائی آبادی لقمہ اجل بن گئی۔دُنیا کی تاریخ جنگ و جدل کی داستانوں سے بھری پڑی ہے اور جنگوں کا خاتمہ ایک فریق کی مکمل شکست کے بعد ممکن ہوتا ہے۔ موجودہ دور کی جنگ ایک منفرد نوعیت کی ہے جس میں عالمی طاقتیں امریکہ، روس، چین، نیٹو ممالک، پراکسی وار میں ملوث ہیں اور چھوٹے ممالک تخریب کار تنظیموں کی پناہ گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان، افغانستان، عراق، ایران، شام، ترکی، لیبیا، یمن میں چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہیں اور مقامی حکومتیں ان تنظیموں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب نہیں ہیں۔ یہ تخریب کار تنظیمیں تمام اسلامی ممالک بشمول پاکستان، افغانستان، انڈونیشیا، عراق، شام، ترکی، فلسطین، لیبیا، یمن میں پروان چڑھ رہی ہیں اور وقتاً فوقتاً تخریب کاری کر کے ملک کی بنیادوں کو ہلا دیتی ہیں۔ تخریب کاری کا ہدف اسلامی ممالک ہونے کے باعث گزشتہ سالوں میں لاکھوں مسلمان لقمہ اجل بن چکے ہیں اور بیشتر اسلامی ممالک دہشت گردی کا شکار ہیں۔ جبکہ دوسری جانب عالمی طاقتیں جن میں امریکہ، روس، یورپ، چین، بھارت شامل ہیں تخریب کاری کے خاتمے کے لئےمؤثر حکمت عملی اختیار نہیں کر رہے اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ بعض بڑی طاقتیں پس پردہ اسلامی ممالک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اثر و رسوخ کےپیش نظرعالمی طاقتیں اس بات کی خواہاں ہیں کہ عالم اسلام کو کمزور کیا جائے اور اس کیلئے انہوں نے اسلامی ممالک کی صورتحال سے لاتعلقی اختیارکرلی ہے۔ تخریب کاری کا سب سے بڑا خطرہ اسلامی ممالک کو ہے انہیں چاہئے کہ تخریب کاری پر قابو پانے کے لئے اتحاد قائم کریں اور اپنے ملک اور دنیا میں اس پر قابو پانے کے لئے متفقہ جدوجہد کا آغاز کریں۔ عالمی طاقتوں کی تخریب کاری کے خلاف مہم صرف ان کے اپنے ممالک کی حد تک مؤثر ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد کی قیادت کے لئےپاکستان کے جنرل راحیل شریف کا نام تجویز کیا گیا ہے۔ اسلامی ممالک کا اتحاد اور مشترکہ لائحہ عمل تخریب کاری پر قابو پانے میں مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کی مشترکہ سریع الحرکت فوج بنائی جائے جو دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع کر سکے۔ دنیا کے 54اسلامی ممالک، اقوام متحدہ کی طرز پر ایک مؤثر تنظیم بنا کر سعودی عرب، ایران، شام، عراق، پاکستان، افغانستان اور یمن کی خانہ جنگی اور باہمی تنازعات طے کریں۔ مسلم ممالک تیل کی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ہیں۔ اس مالی و افرادی طاقت کو اتحاد، تنظیم اور جدوجہد کے ذریعے دنیا میں قیام امن کیلئے بروئے کار لایا جائے۔


.
تازہ ترین