• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 23مارچ کی شب تھی اور یوں لگتا تھا جیسے آسمان کی کہکشائیں لاہور کے حضوری باغ پر اُتر آئی ہوں۔ یہاں United We Reachکے تحت ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس سے وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف کو بھی خطاب کرنا تھا۔ راہروانِ منزلِ شوق کشاں کشاں چلے آ رہے تھے۔ بڑے عرصے بعد اہلِ علم و فضل کا اتنا بڑا اِجتماع دیکھا جس سے اُمیدوں کا چمن کِھل اُٹھا تھا۔ قریب ہی حکیم الامت اور مصورِ پاکستان حضرت محمد اقبال کی ابدی آرام گاہ تھی۔ وہی قلندر جس نے مسلمانوں کے بحر کی موجوں میں اضطراب پیدا کر کے ایک منزل کا سراغ دیا تھا۔ United We Reachایک ادارہ ہے جو امریکہ میں قائم ہوا اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب آفریں تصورات کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ ایسے تصورات جو حقیقی معنوں میں غربت اور افلاس کا خاتمہ کر سکتے اور پس ماندہ غریب طبقوں کو امیروں کا ہم پلہ بنا سکتے ہیں۔ یہ کوئی 2000ء کے لگ بھگ کا ذکر ہے کہ اہلِ تحقیق نے اس امر کا کھوج لگایا کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی تعلیمی اعتبار سے بڑی پس ماندگی پائی جاتی ہے جس کے اسباب نوے کے لگ بھگ ہیں، چنانچہ وہاں کے علمی حلقوں میں گہری تشویش پیدا ہوئی۔ یہی تشویش انہیں افریقہ لے گئی اور یہ معلوم ہوا کہ وہاں کے باشندے علم کے اعتبار سے امریکہ سے کوئی تیس سال پیچھے ہیں۔ ان دلخراش حقائق کے سامنے آنے پر چند احباب امریکہ میں جمع ہوئے جو دردِ دل رکھنے کے علاوہ تعلیمی امور اور جدید ٹیکنالوجی پر گہری دسترس رکھتے تھے۔ ان میں کمپیوٹر چپس کی ڈیزائننگ کے موجد ڈاکٹر نوید شیروانی، اُن کی بیگم صباحت رفیق، اُردو کی معروف ناول نگار محترمہ نثار عزیز بٹ کے صاحبزادے جناب اشعر عزیز، کمپیوٹر سائنس کے ماہر جناب طلحہ زبیر اور دنیا کی متعدد آئل کمپنیوں کے ڈائریکٹر جناب محمد ایمرسی شامل تھے۔
ان اصحاب نے بلند پایہ تعلیمی اور عمرانی علوم کے ماہرین کے ساتھ مشاورت سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا اور ان کے قافلے میں اہلِ نظر شامل ہوتے گئے۔ لائحہ عمل میں چند بنیادی نکات شامل کیے گئے۔ پہلا نکتہ یہ کہ تعلیم اور غربت کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے اور پس ماندہ طبقات کو اعلیٰ معیار کی تعلیم دیے بغیر افلاس ختم نہیں کیا جا سکتا جبکہ عالمی سطح پر غربت کا خاتمہ انسانی بقا اور ارتقا کے لیے ازبس ضروری قرار پایا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ کہ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل سائنس کے ذریعے غریب طلبہ کو بھی اعلیٰ درجے کی تعلیم دی جا سکتی ہے، تیسرا نکتہ یہ کہ تعلیمی اداروں کے نئے اسٹرکچر بنانے کے بجائے دستیاب اسٹرکچر ہی میں بہتری لائی جائے اور دستیاب وسائل اساتذہ اور طلبہ کی ذہنی استعداد بڑھانے پر خرچ کیے جائیں۔ چوتھا یہ کہ تعلیم دینے کے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں کہ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں نشوونما پائیں، اُن کے اندر سوال کرنے کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ ایجاد اور اختراع کی اہلیت سے مالامال ہوتے چلے جائیں۔ پانچواں یہ کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے اساتذہ کے لیے اسباق تیار کیے جائیں اور اُن کی رہنمائی کی جاتی رہے کہ انہوں نے کس مرحلے پر طلبہ سے کیا سوال کرنا ہے، ایک ایک نکتے کی تعلیم پر کتنا وقت دینا ہے اور اُن کی صلاحیتوں کی نشوونما کس انداز سے کرنی ہے۔ چھٹا نکتہ یہ کہ ایک سبق میں الفاظ کا ذخیرہ کتنا اور موضوع کا پھیلاؤ کس قدر ہونا چاہیے۔
اس لائحہ عمل کے مطابق اس ادارے نے افریقہ کے نہایت پس ماندہ علاقوں میں تعلیمی تجربات کیے اور اُن کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ دو تین برسوں کی کاوش سے پس ماندہ بستیوں میں رہنے والے بچے امیروں کے بچوں کے مقابلے میں نمایاں ہوتے گئے اور اُن کے اندر جو خود اعتمادی پیدا ہوئی، اس نے اساتذہ کو حیرت زدہ کر دیا۔ افریقہ میں تعلیمی انقلاب کے آثار دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ سنگاپور میں ریاضی کا معیار بہت بلند ہے جبکہ کیلیفورنیا میں آرٹ اور سائنس کا طریقۂ تعلیم دنیا میں سب سے بہتر ہے۔ سنگاپور اور کیلیفورنیا کے بلند تعلیمی معیار کے مطابق افریقہ میں پس ماندہ بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ ان تجربات کے بعد United We Reachکے ادارے نے پاکستان کی طرف توجہ دی۔ اس ادارے کی چیئرپرسن محترمہ صباحت رفیق نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ دو سال پہلے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک امریکہ آئے اور انہوں نے تعلیم کی زبوں حالی کی جو تصویر کھینچی، تو دل درد سے تڑپ اُٹھا اور ہم نے پاکستان میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم ڈیڑھ سال سے مختلف علاقوں میں پانچ سے زائد اسکول adoptکر چکے ہیں اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے معیاری تعلیم کا دائرہ بڑھاتے جا رہے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں سرے سے سائنس کی تجربہ گاہیں موجود ہی نہیں۔ ہم نے جو اسکول اپنائے ہیں، ان میں سب سے پہلے سائنس لیبارٹریوں کے علاوہ ڈیجیٹل لیبارٹریوں کا خاص اہتمام کیا ہے جن میں طلبہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نئی نئی چیزیں ایجاد کرنے کے تجربات کرتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اساتذہ اور اسکولوں کے پرنسپل ہمارے ساتھ پورا پورا تعاون کر رہے ہیں اور کمیونٹی میں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ دوسرے اسکولوں میں بھی یہی طریقۂ تعلیم رائج کیا جائے۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف ہمارے کم خرچ اور انقلاب آفریں لائحہ عمل میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں اور مجھے اُمید ہے کہ ہماری تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کا معیارِ تعلیم بلند کرنے سے تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے اور اہلِ پاکستان ذہنی پسماندگی اور غربت سے نجات حاصل کر سکیں گے۔ محترمہ صباحت جو اقبال کے عظیم تصورات اور حیات آفریں افکار کی بہت شیدائی ہیں، انہوں نے اہلِ وطن پر زور دیا کہ وہ علامہ اقبال اور قائداعظم کی عظمتِ فکر و کردار کی حفاظت کریں اور ان کی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے میں دیانت داری کا ثبوت دیں۔محترمہ صباحت رفیق جن کو فلسفے، تاریخ اور تقابلِ ادیان میں گہری دلچسپی ہے، وہ امریکی معاشرے میں بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ انہوں نے اسلامی معیشت کی افزائش میں بھی سالہا سال کام کیا ہے اور اُن کا ایمان ہے کہ اسلام ہی سلامتی کا راستہ ہے اور اسلامی تہذیب کے ساتھ پختہ وابستگی ہی سے ہم علم اور تحقیق کے میدان میں عظیم کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ ان کی اور ان کے رفقائے کار کی پُرعزم باتیں سن کر اور ان کی بیش بہا خدمات کا ریکارڈ دیکھ کر یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ ان کی مخلصانہ کاوشیں پاکستان میں ضرور رنگ لائیں گی اور جلد تعلیمی مساوات کا عہد طلوع ہو گا۔ مجھے ان کی علمی ذکاوت اور عزم و استقامت نے بے حد متاثر کیا اور ان سے ملاقات کے بعد دیر تک سوچتا رہا کہ کتنے عظیم ہیں یہ لوگ جو امریکہ میں آرام دہ زندگی بسر کرنے اور سیلیکن ویلی میں ایک نام پیدا کرنے کے باوجود ایک بڑے مقصد کے لیے اپنا آرام تج کر کے پاکستان آتے، مہینوں قیام کرتے اور انسانیت کی بھلائی کیلئے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ اور کتنی خوش نصیب ہے ہماری قوم جسے قدرت نے ایسے پُرعزم اور ایثار کش فرزند عطا کیے ہیں۔ میں ابھی تک ان کی عظمت کے سحر میں گرفتار ہوں۔




.
تازہ ترین