پنجاب یونیورسٹی میں تھا کہ طلبا کے ایک گروپ کے ساتھ دسمبر 1969 میں پہلی بار مشرقی پاکستان جانے کا اتفاق ہوا تھا اور بے پناہ ہریالیوں اور پانیوں کی سرزمین کو دیکھ کر ہم مبہوت رہ گئے تھے۔ ہفتہ بھر قیام رہا۔ اصل منزل ڈھاکہ تھی ، مگر راجشا ہی بھی ہو آئے، جہاں ہمارا ایک سینئر بطور اسسٹنٹ کمشنر متعین تھا اور فی الحقیقت اس وزٹ پروگرام کا محرک موصوف کی پرجوش دعوت تھی۔ پھر ہماری بدنصیبی کہ ہم اپنے مشرقی بازو کو سنبھال نہ سکے اوروہ بنگلہ دیش بن گیا۔ راقم کو دوبارہ بنگلہ دیش جانے کا موقع بھی مل چکا ہے۔ جب بھی گیا دسمبر 1969ء والا وزٹ آنکھوں کے سامنے رہا۔ گزشتہ نومبر دبئی سے بنکاک کا پروگرام تھا، خیال گزرا کہ ڈھاکہ بھی کہیں راہ ہی میں پڑتا ہے، کیوں نہ دو ایک دن وہاں بھی گزار لیا جائے۔ ویزہ موجود تھا، سو چنداں دشواری نہیں ہوئی البتہ ٹکڑوں میں سفر کا کرایہ کچھ زیادہ نکلا اور ہوٹل کا خرچہ اس پر مستزاد، مگر ڈھاکہ کی خاطر سب منظور۔
شاید یہ میری اس شہر کے ساتھ لگن کا انعام تھا یا کچھ اور کہ جونہی ایک درمیانے سے ہوٹل میں چیک ان ہوا، تو کائونٹر کلرک کا پہلا سوال تھا، صاحب! فوک فیسٹیول کے لئے آئے ہو؟ چھ بجے تک تیار ہو جائے گا، ہماری وین ٹھیک وقت پر نکلے گی اور یہ سب میرے سر کے اوپر سے گزر گیا تھا۔ سوچا کہ بی بی مجھے کسی اور مہمان کے ساتھ مکس اپ کر رہی ہے۔ عرض کیا، کیسا فوک فیسٹیول، ہماری تو کوئی بکنگ وغیرہ نہیں ہے، پتہ چلا کہ ڈھاکہ آرمی اسٹیڈیم میں سہ روزہ فوک میوزک اور ڈانس جشن چل رہا ہے اور سارا شہر اس کی لپیٹ میں ہے۔ انٹری فری ہے، البتہ پہلے آئو پہلے پائو کی بنیاد پر رجسٹریشن ضروری تھی، جو ہوٹل والوں نے اپنے 20 ممکنہ مہمانوں کے لئے پہلے ہی کروا رکھی ہے۔ فیسٹیول کا کچھ لٹریچر لے کر کمرے میں آگیا۔ عقدہ کھلا کہ ایونٹ انٹرنیشنل قسم کا ہے۔ میزبان ملک کے علاوہ انڈیا، پاکستان، ترکی، فرانس، اسپین، برطانیہ اور کینیڈا کے فن کار بھی شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی شرکت کا جان کر خوشی ہوئی۔ ہمارے کلاسیکل سنگر جاوید بشیر کا خاص طور پر چرچہ تھا کہ بہت سی بالی وڈ فلموں میں پہلے پلے بیک میوزک دے چکے ہیں۔ ان کے نغمے ’’تم نے کیا کردیا‘‘ کی بھی دھوم تھی۔
جیسا کہ عرض کیا، فوک گائیگ اور رقاص دنیا بھر سے آئے تھے اور اپنے اپنے فن میں یکتا بھی تھے۔ مگر مجھے جس چیز نے متاثر کیا وہ بنگالی فنکاروں کی مدھ بھری گائیکی اور اس سے بڑھ کر فن رقص میں بلندیوں کو چھوتی ہوئی ان کی مہارت تھی، جس نے بلاشبہ شائقین کو مسحور کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ میری خوش بختی کہ بھارتی پنجاب کی فوک اور صوفی میوزک کی نامور گائیک نوراں سسٹرز کو سننے کا موقع ملا۔ ویسے تو ان کی ساری کی ساری گائیکی ہمارے صوفی شعرا کی مرہون منت ہے۔ بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، سلطان باہو، خواجہ غلام فرید، علی حیدر جیسے بزرگوں کا کلام اس والہانہ انداز میں گاتی ہیں کہ مجمع پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ مگر ڈھاکہ کے آرمی اسٹیڈیم میں اس شب ان کے جس آئٹم پر ہزاروں سامعین محو رقص تھے۔ وہ سہون کے سائیں لعل شہباز قلندر کی معروف زمانہ دھمال تھا۔ دمادم مست قلندر، سخی شہباز قلندر، آدھ گھنٹے کی اس پرفارمنس کے دوران مجمع میں ایک بھی شخص ساکت نہیں تھا۔ ہر کسی کے پائوں دھمال کی بیٹ پر والہانہ اٹھ رہے تھے اورمیں دم بخود تھا کہ بنگلہ دیش کے یہ نوجوان دو ہزار کلو میٹر دور محو استراحت سندھڑی کے سائیں کے رنگ میں کیسے رنگ گئے؟ قلندر کی یہ دھمال انہوں نے کہاں سے سیکھی؟ سارا کلام تو پنجابی زبان میںہے اور بنگلہ اور پنجابی کی تو کوئی سانجھ بھی نہیں، تو یہ ابلاغ کیونکر ہو رہا ہے؟ مگر حیرت کیسی؟ یہ تو اللہ کے ان ولیوں اور بزرگوں کا تصرف ہے، جو دین حق کا پیغام لے کر اس خطے میں آئے اور ان کی محبت، شفقت اور رواداری کے سبب مقامی لوگ دیوانہ وار ان کی طرف کھنچے چلے گئے اور دائرہ اسلام بتدریج وسیع تر ہوتا گیا۔
لطف کی بات کہ اپنے آبائو اجدادکے عقائد اور مذاہب پر قائم رہنے والے بھی اللہ کے ان ولیوں کے پیغام سے متاثر ہوئے اور اس کی آفاقیت میں رنگے گئے اور آج بھی ان کا نام ادب و احترام سے لیتے ہیں۔ راقم کو کئی بار بھارت گھوم پھر کر دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ بستی بستی قریہ قریہ مسلمان بزرگوں کے مزارات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کی نگہداشت بھی ہوتی ہے۔بھارتی پنجاب کا تو نقشہ ہی کچھ اور ہے۔ مسلمانوں کی چھوڑی ہوئی خانقاہیں ویسے ہی آباد ہیں اور عرس اور میلے بھی ویسے ہی لگتے ہیں۔ راقم ہجرت سے پہلے کے آبائی گائوں (چنکوعہ، ضلع نوان شہر) گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بزرگوں کے مزارات پر قرآنی آیات سے مزیں سبز چادریں پڑی ہوئی تھیں اور وہاں موجود غیر مسلم خادمین نے بتایا کہ سالانہ عرس اب بھی اسی تاریخ کو اسی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔
راقم اس وجد آفریں کلام کو پیش کرنے والی نوراں سسٹرز سے ملنا چاہتا تھا، جو بوجوہ ممکن نہ ہو پایا۔ البتہ ان کے طائفہ کے ایک رکن نے بتایا کہ ہماری تو روٹی روزی ہی ان درگاہوں اور درباروں سے بندھی ہے۔ بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، سلطان باہو، خواجہ غلام فرید، علی حیدر جیسے بزرگ تو ہمارے ان داتا ہیں، ان کا نام نہ لیں تو بھوکے مر جائیں۔ البتہ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ان سب بزرگوں کا تعلق سرزمین پاکستان سے ہے۔
ڈھاکہ فوک فیسٹیول نے شاد بھی کیا اور دکھی بھی اور میں اس دن سے سوچ رہا ہوں کہ بلا لحاظ مذہب و ملت برصغیر بھر کو محبت، شفقت اور رواداری کا درس دینے والی برگزیدہ ہستیوں کی ہم قدر کیوں نہیں کر پا رہے۔ وہی لعل شہباز قلندر جن کے نام کے دھمال سے ڈھاکہ کا آرمی اسٹیڈیم لرز رہا تھا، 16 فروری 2017ء کو ان کے مزار پر خودکش دھماکہ ہوا اور سو کے لگ بھگ زائرین لقمہ اجل بن گئے اور یہ کوئی پہلی واردات نہیں تھی۔ داتا گنج بخشؒ، بابا فریدؒ، گنج شکرؒ، عبداللہ شاہ غازیؒ، بری امام سرکارؒ رحمان باباؒ، لسبیلہ والے شاہ احمد نورانی ؒ اور دیگر کئی خانقاہوں پر اسی انداز میں خون کی ہولی کھیلی جا چکی ہے۔ ایسا کیوں ہے اور ہم سے کیا بھول ہوگئی؟ سوچنے کی بات ہے، میں بھی سوچتا ہوں، آپ بھی سوچئے!
.