• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسٹر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ اگلے وزیر ِ اعظم پاکستان کو وہ ’’منتخب ‘‘ کریں گے ۔ سابق صدر کا مزید کہنا ہے کہ وہ بھی ذاتی طور پر انتخابات میں حصہ لیں گے ۔ ان دونوں بیانات کو سامنے رکھیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زرداری صاحب الیکشن جیتنے کے بعد خود وزیر ِاعظم بننے کی بجائے کسی اور کو اس عہدے کے لئے چنیں گے ۔ گویا پی پی پی اگلا الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوگی، چنانچہ اگلا وزیر ِاعظم کسی اور پارٹی سے آئے گا اور زرداری صاحب اُسے ووٹ دیں گے ۔ایسااس صورت میں ہوگا جب پی پی پی الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوجائے، لیکن اُسے سندھ سے اتنی نشستیں مل جائیں کہ وہ پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری مسابقت میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔اس کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی یا پی ایم ایل (ن) اتنی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی کہ اپنے طور پر حکومت بناسکے ، چنانچہ وہ پی پی پی ، یا پھر علاقائی جماعتوں کی طرف دیکھیں گے ۔ یہ وہ موقع ہوگا جب زرداری صاحب اپنا ’’فیصلہ کن ووٹ ‘‘ڈالتے ہوئے وزیر ِاعظم کو چنیں گے ۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پی پی پی کے کسی لیڈر نے الیکشن سے پہلے ہی تسلیم کرلیا ہو کہ پی پی پی الیکشن نہیں جیتے گی۔ اس سے پہلے بھٹو فیملی ( ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو) نے اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کے باوجود چار عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ آخری الیکشن (2008ء) میں محترمہ اس دنیا میں نہیں تھیں لیکن پی پی پی کو ووٹ اُنہی کی وجہ سے ملا تھا۔ اب زرداری صاحب کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ پی پی پی عوام کی حمایت سے کس حد تک مایوس ہوچکی ہے ۔ درحقیقت یہ کارنامہ زرداری صاحب نے تن ِ تنہا سرانجام دے ڈالا ہے ۔ اُنھوںنے عوام کی زبردست حمایت رکھنے والی ایک ملک گیر سیاسی جماعت کو اندرون سندھ کی سیاست کے بل بوتے پر محض صوبائی حکومت پر قناعت کرنے والی پارٹی میں تبدیل کردیا ۔بدعنوانی اور شخصیت پرستی کی سیاست اور کیا گُل کھلا سکتی تھی؟زرداری صاحب کی واپسی سے نوجوان بھٹو کی آمد کو ہوا کا خوشگوار جھونکا سمجھنے والوں کی امید دم توڑ چکی ۔ اُن کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی ڈیل کرنے کی صلاحیت کو مہمیز دیتے ہوئے کنگ میکر کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خود کنگ نہیں بن سکتے ۔
اہم بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کا اگلے انتخابات میں مرکزی جماعتوں کے کردار کا تجزیہ اُن کی اپنی جماعت کی بابت ہی نہیں، وہ پی ٹی آئی یا پی ایم ایل(ن) کی کامیابی کو بھی سمٹتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ پی ایم ایل (ن) کو اسٹیبلشمنٹ اور پاناما لیکس محدود کردیں گے، نیز پی ٹی آئی بھی نادیدہ ہاتھوں کا تعاون کھوچکی ہے ۔ اس کے علاوہ عمران خان کی قلابازیاں اور یوٹرن ہی ان کے جذباتی حامیوں کو ہی مایوس نہیں کر چکے ،پی ٹی آئی کو ناکام دھرنوں اور بے مقصد لانگ مارچ اور گراس روٹ تک تنظیم سازی نہ کرنے کی پالیسی نے بھی نقصان پہنچایا ۔ دوسرے الفاظ میں ، ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں پی پی پی سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ان میں سے کوئی بھی پی پی پی کے تعاون کے بغیر حکومت نہیں بنا سکے گی۔
مسٹر زرداری اس سال کے اختتام تک عام انتخابات کا انعقاد دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پیش گوئی کا انحصار پاناما کیس کے وزیر ِاعظم نواز شریف کے خلاف سخت فیصلے پر ہے ۔ اس صورت میں قبل از وقت انتخابات ہوسکتے ہیں۔ قبل ازوقت انتخابات کی خواہش کی وجہ پی ایم ایل (ن) کو سینیٹ میں بھاری اکثریت ، اس وقت یہ اکثریت پی پی پی کے پاس ہے، حاصل کرنے سے روکنا ہے ۔ اگر عام انتخابات اگلے سال ہوتے ہیں تو فرور ی میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) پنجاب اور مرکز میں واضح اکثریت رکھتے ہوئے نمایاں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ لیکن اگر عام انتخابات کا انعقاد اسی سال ہوتا ہے اور کوئی (زرداری صاحب کی توقع کے مطابق) جماعت بھی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر سینیٹ میں بھی قومی اسمبلی کا عکس دکھائی دے گا۔ اور وہ صورت ِحال زرداری صاحب کو راس آئے گی کیونکہ مرکز میں اپنے پتے کھیلتے ہوئے سندھ میں فری ہینڈ حاصل کرلیں گے ، اور یہی اُن کی سب سے بڑی ترجیح ہے ۔
اس دوران زرداری صاحب اپنے لئے بھی سیاسی اسپیس پید اکرنے کی کوشش میں ہیں۔ وہ عمران خان کے ساتھ مل کر اُن کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بجائے کسی طریقے سے نواز شریف کو گرانا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران نواز شریف اور زرداری، دونوں کو بدعنوانی کے کیسز میں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، لیکن نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات لگانے سے گریز کررہے ہیں، نیز وہ پی ٹی آئی کے قائد پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگارہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اگلے عام انتخابات میں بدعنوانی کو فیصلہ کن بیانیہ بنا کر وزیر ِاعظم ہائوس تک پہنچنے کا عزم کرچکے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف اپنے ترقیاتی کاموں پر تکیہ کررہے ہیں ۔ جہاں تک آصف زرداری کا تعلق ہے تو اُن کے لئے سندھ میں حاصل کردہ کامیابی ہی کافی ہوگی ۔
اس تمام صورت ِحال میں ایک اہم عامل پیش گوئی کو مشکل بنادیتا ہے ۔ یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جنرل قمر باجوہ کی قیادت میںاسٹیبلشمنٹ کسی طرف سیاسی جھکائو نہیں رکھتی۔ حالیہ دنوں جب عمران خان جنرل باجوہ سے ملاقات کرکے واپس آئے تو اُن کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جنرل صاحب جمہوریت کے حامی ہیں۔ اس سے پہلے ، جب سے عمران سیاست میں آئے ہیں، اُنھوںنے ہر آرمی چیف سے امید لگائے رکھی کہ کوئی نادیدہ ہاتھ اُنہیں وزیر ِاعظم ہائوس تک لے جائے گا۔ اور جب ایسا نہ ہوا تو وہ فوراً ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور جمہوریت کے گن گانے لگے ۔ اس سے پہلے2013، 2008، 2002، 1997، 1993، 1990 اور 1988 کے عام انتخابات کی درست پیش گوئی کی گئی تھی، کیونکہ اُس وقت صرف مقتدر ادارے کی پسند اور ناپسند کو فیصلہ کن سیاسی عامل سمجھا جاتا تھا۔ صرف 1970 کے عام انتخابات ایسے تھے جن سے اسٹیبلشمنٹ لاتعلق رہی تھی۔ ان حالات میں کون جانتا ہے کہ قسمت کو کیا منظور ہے؟



.
تازہ ترین