• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی معاشرے سے انصاف کا اٹھ جانا اُس معاشرہ کی موت سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے جان کنی کے عالم میں ہے۔ فرد کے حوالے سے دیکھا جائے تو لاکھوں افراد ایسے ہیں جن کی زندگی میںان کے مقدمات کا فیصلہ نہ ہو سکا بلکہ کئی مقدمے تو تیسری نسل تک چلتے رہتے ہیں۔ اتنی رقم یا زمین کا کیس نہیں ہوتا جتنی رقم اس کے اوپر خرچ ہو جاتی ہے۔ بقول شاعر
انصاف کی تلاش میں نکلا تھا مدعی
ساری رقم گرہ کی، وکیلوں میں بٹ گئی
عمران خان بھی اِسی انصاف کی تلاش میں تحریک انصاف تک پہنچے یعنی انہیں لگا کہ اس وقت لوگوں کو انصاف فراہم نہیں جا سکتا۔ جب تک ملک کا اقتدار دسترس میں نہ ہو۔ بہر حال یہ طے ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اِ س وقت پاکستان کا عدالتی نظام بہت بہتر ہے۔ اسی سبب لوگوں کی عدالتوں سے توقعات بڑ ھ گئی ہیں۔ خاص طور پرپاناما کیس کے فیصلے کے انتظار میں زیادہ تر لوگوں کو عدالت عالیہ اچھی لگ رہی ہے۔ بے شک اس کیس میں قوم دو حصوں میں تقسیم ہے اور دونوں طرف کے ہمدرداپنے اپنے حق میں ہونے والے فیصلے کے انتظار میں ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو ابوالکلام آزاد کی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بعض عدالتوں نے ایسے فیصلے بھی کئے ہیں جنہیںبڑے جرائم میں شمار کیا گیا۔ سقراط کی موت کا فیصلہ بھی عدالت گاہ میں ہوا تھاحضرت عیسیؑ کو صلیب پرسجانے کاحکم بھی ایک عدالت سے دلایا گیا تھا۔ منصور حلاج کوبھی سولی پرلٹکانے کافیصلہ قاضی القضاہ نے دیا تھا۔ گلیلیو کے لئے بھی موت کی سزاعدالت ہی نے تجویز کی تھی۔ ماضی میںپاکستانی عدالتوں میں کئی فیصلے بڑے متنازع ہوئے ہیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت اور کچھ مارشل لائوں کے حوالے سے مولوی تمیزالدین کیس سےلے کر نظریہ ضرورت کی تخلیق تک کا معاملہ ابھی تک اختلافی ہے۔ ماضی قریب کے انقلابی چیف جسٹس کے سوموٹو ایکشن سے لے کر سیاسی پارٹی کے قیام تک کئی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آج کی عدالت ماضی کی عدالتوں کے مقابلے میں زیادہ تابناک ہےاور ماضی میں بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہی عدالتوں نے کروڑوں مرتبہ انصاف کیا ہے اگر ایک سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا ہے تو ہزاروں سقراط انہی عدالتوں کی بدولت زندہ بھی رہے ہیں اگر ایک عیسیٰ ؑکو مصلوب ہونے کی سزا سنائی گئی ہے تو کتنے مسیحاؤں کو انہی عدالتوں سے زندگی بھی ملی ہے اگر ایک منصور سولی پر سجا ہے تو انہی عدالتوں نے کتنے منصوروں کی سچائی کو تسلیم بھی کیاہے۔ عدالت تو بنائی ہی انصاف کیلئے گئی ہے۔ اسی لئے جب کہیں عدالتوں میں ظلم ہوا تو تاریخ نے اسے اپنے سینے پرسجا لیا۔ مگر عدالتوں میں ایساکوئی واقعہ صدیوں میں ایک ہوا کرتا تھا۔ ظلم کی کہانی برسوں میں کہیں کوئی ایک لکھی جاتی تھی۔ یہ بات درست ہے کہ انسانی تاریخ میں پاکستان جیسی صورت حال کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ میں یہ مانتا ہوں کہ ماضی میںعدالتوں نے ڈکٹیٹروں کا ساتھ دیا انہی کے اشاروں پر انصاف کی کرچیاں کی گئیں اور پھر انہیں لوگوں کے پاؤں میں چبھنے کیلئے شہروں،سڑکوں اور گلیوں میں بکھیر دیا گیالیکن میرا خیال ہےکہ آسمان ابھی زمین سے مایوس نہیں ہوا۔ ابھی کچھ لوگ موجود ہیں۔ اور لمحہ موجود کی سب سے بہتر بات یہ ہے کہ عدالتِ عالیہ کی توجہ پاکستان کی معاشی صورت حال کی طرف ہے جسے کرپشن کی دیمک چاٹ چکی ہے۔ غریب غریب سے غریب تر ہوا ہے اور امیر امیر سے امیر تر۔ اس قوم نے ایسے تمام کام چھوڑ دئیے ہیںجس سے زندگی خوبصورت تر ہو۔ انسانیت کے راستے میں روشنی ہو پھول کھلیں،ان کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا وہ جن کے پیٹ خالی ہیں وہ جنہیں تن ڈھاپنے کیلئے کپڑے میسر نہیں۔ وہ جن کے لباسِ زندگی میں جگہ جگہ درد کے پیوند لگے ہوئے ہیں۔ جہاں آہیں اور کراہیں، جہاں آنسو ہیں جہاں سے صرف بین سنائی دیتے ہیں۔ اربوں کی کرپشن اور قرضوں کی معافی کو دیکھ کر اور کچھ نہیں تو کم ازکم اتنا ضرور ہو گا کہ کسی غریب ہونٹوں کوپل بھر کیلئے ہی سہی مسکراہٹ تو مل جائے گی غربت سے رہائی کا جذبہ نجانے کب ایک شوخ علم کی صورت لہرائے گا۔ پچھلی صدی تک شاعر زندگی کے درد کوبڑی شدت کے ساتھ بیان کرتے رہے ہیں مگر سرمایہ دارانہ زندگی کی گرفت نے سچائی کی اس تحریک کوبھی اس انداز میں کچل دیا ہے کہ ا ٓج اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے لکھنے والوں کے موضوعات میں سے زندگی کے مسائل بھی تھے یہ بنیادی دکھ کون چرا کر لے گیا ہے۔ جنرل ایوب کے دورمیں جب پاکستان میں آٹا بیس روپے من ہوا تھا تو حبیب جالب نے گلی گلی جا کر کہا تھا
بیس روپے من آٹا
اور اس پر بھی ہے سناٹا
صدر ایوب زندہ باد!
اس وقت پاکستان میں ایک سیر آٹے کی قیمت غریب کی قوتِ خرید سے کہیں زیادہ ہے۔ لوگ مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ زندگی غربت کی چکی میں پس پس کر اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں جینے اورمرنے میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا مگر ہم صرف سڑکیں تعمیر کر رہے ہیں۔ ہماری ستر فیصد آبادی دیہی علاقوں میں ہے جن کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ اب ہماری تمام امیدیں سی پیک کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں کہ وہی ہمیں معاشی بدحالی کی دلدل سے باہر نکالے گا۔ ممکن ہے سی پیک سے خاصی بہتری آئے مگر مجھے لگتا ہے کہ اس کی تعمیر کے بعد غریب غریب تر رہے اور امیر امیر ترین بنیں گے۔ میں اس صورت حال میں سوائے دعا کے اور کیا کر سکتا ہوں۔ یا اللہ... روشنی سے بھر دے سب کو... ایک جیسا کر دے سب کو... سب مکانوں میں دیے ہوں... پھول ساروں کیلئے ہوں... لوگ جیون میں جئے ہوں... زندگی بہتر دے سب کو... ایک جیسا کر دے سب کو... اب نہ غربت ہو کہیں بس... دے مساواتِ حسیں بس... روٹی کپڑا ہی نہیں بس... اچھے اچھے گھر دے سب کو... ایک جیسا کر دے سب کو... فکرِ مال و زر بدل دے... آگہی کے در بدل دے... یہ نظامِ شربدل دے... خیر کا منظر دے سب کو... ایک جیسا کر دے سب کو... ایک ازلوں کی کہاوت... بھوک اور رج میں عداوت... ظلم طبقاتی تفاوت... ہمتِ بوزر دے سب کو... ایک جیسا کر دے سب کو... سچی بات یہی ہے کہ مجھے اس دعا کی قبولیت کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ میرا خیال ہے پاناما کےلئے دعا کی جائے۔ وہاں سے شاید کوئی صبح طلوع ہوجائے۔ امید اس کی بھی کم ہے۔



.
تازہ ترین