• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ 1953کی پرانی ڈائری کا ایک ورق تھا جس میں اس دور کے پاکستان میں ہونے والی سرکاری تعطیلات کی تفصیل درج تھی، کسی نے سوشل میڈیا پر اس کی تصویر جاری کردی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ورق ’’وائرل ‘‘ ہو گیا، حتیٰ کہ بھارتی انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے بھی اسے اپنے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کیا کیونکہ آر ایس ایس کیلئے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ 1950کے پاکستان میں غیر مسلموں کے تہواروں پر عام تعطیل ہوا کرتی تھی۔ پاکستان میں تعطیلات کی بحث بھی خاصی دلچسپ ہے، کبھی ہمارے دل میں اقلیتو ں کی محبت جاگ اٹھتی ہے تو کبھی اسلامی تشخص اجاگر کرنے کا جذبہ موجیں مارنے لگتا ہے، کبھی مغربی اقوام کی پیروی میں کم سے کم چھٹیوں کی مہم چلائی جاتی ہے تو کبھی قومی شخصیات کے یوم ولادت نہ منانے پر تنقید کی جاتی ہے۔ گویا کسی حال میں خوش رہنا ہم نے نہیں سیکھا۔ (فلاں لیڈر نے سیکورٹی کے نام پر بلٹ پروف گاڑی رکھی ہے، یہ وی آئی پی کلچر ہے.... فلاں لیڈر حملے میں مارا گیا، اس کی سیکورٹی ٹھیک نہیں تھی) مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ جب برٹش انڈیا تقسیم ہوا تو بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے وسائل کم اور مسائل زیادہ تھے، عموماً ہماری نصابی کتب میں تاریخ غلط سلط کی جاتی ہے مگر ’’for a change‘‘ یہ بات ٹھیک لکھی ہے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کا نام تبدیل نہیں ہوا، یہ وہ نام تھا جس سے دنیا آشنا تھی، صدیوں پر پھیلی اس کی ایک تاریخ تھی جبکہ پاکستان ایک نیا نام تھا، اسے ایک شناخت درکار تھی، ایک ایسا بیانیہ درکار تھا جو اسے درخشاں تاریخ سے بھی جوڑتا، مسلم قومیت پسندی کا تڑکا بھی لئے ہوتا اور اس میں 1947کی آزادی کی لہر بھی موجزن ہوتی۔ اس بیانئے کی تشکیل کا ایک حصہ کیلنڈر میں سرکاری تعطیلات کے تعین سے کیا گیا۔ یہ کیسے ہوا؟
1947کے بعد پاکستان نے چھٹیوں کے اعلان کا برطانوی طریقہ کار ہی جاری رکھا، عام تعطیل کا اعلان Negotiable Instruments Act 1881کی دفعہ 25کے تحت کیا جاتا گو کہ اس قانون کا براہ راست کوئی تعلق تعطیلات سے نہیں تھا۔ برطانوی راج میں چونکہ ہندوستانی شہری کا کوئی تصور نہیں تھا، ہر شخص تاج برطانیہ کا وفادار تھا اس لئے ایک قومی کیلنڈر کے تحت ہندوستان میں قومیت کا تشخص ابھارنے کی انگریزوں کی کوئی خواہش نہیں تھی۔ علاقائی، موسمی اور مذہبی تعطیلات ضرور ہوا کرتی تھیں مگر انگریز سرکار اس بات کا خیال رکھتی تھی کہ کسی ایک قوم کی چھٹیاں اس کی آبادی کے تناسب سے دوسری قومیت سے بڑھ نہ پائیں۔ اور حکومت چونکہ ملکہ برطانیہ کے نام پر کی جاتی تھی سو ملکہ کی سالگرہ پر عام تعطیل تو لازمی تھی۔ یہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی کیونکہ 1947کے بعد بھی پاکستان کو تاج برطانیہ کے چنگل سے نکل کر ری پبلک بننے تک نو برس لگے جب تک ہم نے آئین تشکیل نہیں دے دیا۔ تاہم آزادی کے فوراً بعد ایک تبدیلی یہ آئی کہ 22اگست 1947سے ہم نے جمعہ کی آدھی چھٹی کر دی۔ تعطیلات کے ضمن میں دو اہم تبدیلیاں قائد اعظم کے گورنر جنرل کے دور میں کی گئیں۔ پہلی،12 دسمبر 1947کو لیاقت علی خان نے قائد اعظم کو تجویز پیش کی کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے یوم ولادت پر سرکاری تعطیل ہونی چاہیے اور چونکہ 25دسمبر کو کرسمس کی چھٹی تھی اس لئے قائد کا یوم ولادت منانے کی منظوری خود قائد نے 26دسمبر کو دی تاہم بعد میں اسے 25دسمبر کر دیا گیا اور علیحدہ چھٹی ختم کر دی گئی۔ دوسری تجویز وزیر اعظم نے یہ دی کہ یوم آزادی 15اگست کی بجائے 14اگست کو منایا جانا چاہیے، اس تجویز کو بھی قائد نے بطور گورنر جنرل منظور کر لیا۔
اس زمانے میں دیوالی، دوسہرا اور جنم اشٹمی کے موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل ہوا کرتی تھی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ تہوار قومی سطح پر منائے جاتے تھے، وجہ ان چھٹیوں کی مشرقی پاکستان میں ہندوؤں کی اچھی خاصی آبادی تھی، اسی طرح کرسمس کے علاوہ گڈ فرائیڈے کی بھی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ یہی نہیں بلکہ مشرقی پاکستان میں ’’آپشنل تعطیلات‘‘ کی ایک طویل فہرست تھی جو زیادہ تر ہندو تہواروں کے لئے تھیں جیسے دول جاترا، چیرا سنکرانتی، جنم اشٹمی، مہالائے، لکشمی پوجا، کالی پوجا اور جگ دھارتی پوجا۔ ایک مطالبہ علامہ اقبال کے نام پر تعطیل کا بھی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1947سے 1970کی دہائی تک اقبال کے یوم ولادت یا یوم وفات پر کوئی تعطیل نہیں ہوا کرتی تھی، 1951میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ 21اپریل کو عام تعطیل کی جائے، یہ تجویز پنجاب کی طرف سے آئی، دلیل یہ دی گئی کہ اقبال کا پیغام محض پاکستان تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ پورے عالم اسلام کے لئے تھا سو اگر پاکستان مسلم دنیا کی امامت کا ذمہ لینا چاہتا ہے تو اُس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اقبال کو قومی شاعر اور فلسفی کی طرح پذیرائی دی جائے۔ تاہم یہ مطالبہ منظور نہ ہو سکا اور جواب میں یہ دلیل دی گئی کہ اگر اس طرح کیا گیا تو پھر ایک چھٹی سر سید احمد خان کی بھی بنتی ہے اور ایک تعطیل بنگالی شاعر نذر الاسلام کے نام بھی ہونی چاہیے۔ ویسے اقبال کی چھٹی ہم نے بھلے نہ دی ہو مگر لیاقت علی خان کی پہلی برسی پر عام تعطیل تھی اور شاہ جارج ششم کی وفات پر بھی ہم نے چھٹی کرکے سوگ منایا تھا۔
ایوب خان نے 1958میں قومی تعطیلات میں بھی ’’انقلابی اصلاحات‘‘ کرنے کا عزم کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1965کے آتے آتے ملک سے وہ تمام تعطیلات جو اقلیتی برادری سے جڑی تھی، ختم کر دی گئیں، جن میں دوسہرا اور گڈ فرائیڈے بھی شامل تھیں۔ یوم اقبال پر صرف مغربی پاکستان میں چھٹی ہوا کرتی تھی اور یوم پاکستان کی چھٹی بھی اِسی دور میں کیلنڈر کا حصہ بنی جو پہلے نہیں تھی، حالانکہ قرارداد پاکستان 1940کی منظور ہوچکی تھی۔ وجہ یہ تھی 23مارچ کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا تھا کیونکہ 1956میں اس روز آئین منظور کیا گیا تھا، یہ روایت 1958تک جاری رہی پھر مارشل لگا دیا گیا،اب یوم جمہوریہ کس منہ سے منائیں! کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ چونکہ اقلیتوں کے حصے کی دو چھٹیاں کاٹ لی گئی تھیں اس لئے طے پایا کہ اُن کی جگہ 27اکتوبر کو ’’یوم انقلاب‘‘ کی چھٹی منائی جائے (مراد یہ کہ مارشل لا کا جشن) اور دوسری چھٹی6ستمبر کو یوم دفاع کی دی جائے۔یکم مئی کی چھٹی سب سے پہلے 1972میں دی گئی وجہ اس کی سوشل ازم کا نعرہ تھا اور اقبال کی قسمت بالآخر 1975میں جاگی جب پہلی مرتبہ سرکاری سطح پر چھٹی کا اعلان کرکے تقریبات منعقد کی گئیں، مشرقی پاکستان چونکہ باقی نہیں رہا تھا سو اقبال کی چھٹی کے بدلے نذر الاسلام کی چھٹی مانگنے والے بنگالی بھی اب نہیں رہے تھے۔ اب ہمارے کیلنڈر میں سوائے کرسمس کے اور کوئی چھٹی اقلیتوں سے متعلق نہیں ہے۔ کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے!
نوٹ :اس کالم میں حقائق پیرزادہ علی عثمان قاسمی کے ایک مقالے سے لئے گئے ہیں، آپ تاریخ کے استاد ہیں، ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں رائل ہولووے کالج، لندن سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی، دو کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ایک کو KLF 2015کی بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
کالم کی دُم:علی میرا چھوٹا بھائی ہے۔



.
تازہ ترین