اسلام آباد (حنیف خالد ) چیئرمین سینٹ رضا ربانی کے ایوان نہ چلانے کے فیصلے کا پس منظر بڑا دلچسپ اور تکلیف دہ ہے۔ چیئرمین رضا ربانی سینٹ کے اجلاسوں میں بارہا وزراء کی ایوان سے غیر حاضری اور کارروائی میں عدم دلچسپی کا شکوہ کرتے چلے آرہے ہیں آخر تھک ہار کے جمعہ کی صبح انہیں انتہائی وہ قدم اٹھانا پڑا جس کا دبے لفظوں میں اظہار چیئرمین رضا ربانی سینٹ کے موجودہ اجلاس میں بار بار کرتے رہے، مگر حکومتی وزراء کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور انہوں نے چیئرمین رضا ربانی کے بار بار کے ریمارکس کو مذاق سمجھ لیا ۔ سینٹ کے 261 ویں اجلاس کے چوتھے روز جمعہ کی صبح دس بجے اجلاس شروع ہو ا تو وقفہ سوالات کے آغاز پر ہی ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق کے ضمنی سوال پر جب حکومتی وزیر شیخ آفتاب احمد جو کہ ایوی ایشن ڈویژن کے وزیر کی عدم موجودگی میں ان سے پوچھے گئے ضمنی سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے کیونکہ میاں عتیق کا ضمنی سوال انتہائی ٹیکنیکل نوعیت کا تھا تو چیئرمین سینٹ نے وزراء کی غیر حاضری کو ایک بار پھر عیاں کیا۔ بعدازاں 25 فیصد کے لگ بھگ سوالات کے جواب سینٹ سیکرٹریٹ کو وزارتوں کی طرف سے موصول نہ ہوئے تھے جس کے بارے میں وہاں پر موجود وزیر قانون زاہد حامد سے چیئرمین نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کیا میں اس عمل کو یہ سمجھوں کہ حکومت اور حکومتی وزراء کے ساتھ وزارت کے تمام ذمہ داران سینٹ کو قطعی طور پراہمیت نہیں دے رہے جو کہ میرے لئے باعث شرمندگی ہے اور ان حالات میں جب کہ اپوزیشن کے ارکان انتہائی محنت و کاوش کے ساتھ ایوان بالا میں بزنس ( تحاریک التواء، توجہ دلائو نوٹس وغیرہ ) لے کر آتے ہیں اور اگر حکومت کی طرف سے ایوان بالا کے ساتھ یہ سرد مہری ہو تو میں ایوان کا بزنس کیسے چلا سکتا ہوں یہ کہتے ہوئے چیئرمین رضا ربانی نے دس بجکر30منٹ پر سینٹ کا اجلاس35 منٹ کیلئے ( گیارہ بجکر پانچ منٹ تک کے لئے) موخر کردیا جب دوبارہ ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو ایجنڈے کے مطابق سینیٹر میاں عتیق کی تحریک التواء کا نوٹس کال کیا گیا جس پر سینیٹر میاں عتیق نے کھڑے ہو کر تحریک التواء پڑھنا شروع کی جو ملتا ن الیکٹرک سپلائی کمپنی (MEPCO) کی طرف سے گھریلو تجارتی صنعتی حتیٰ کہ حکومتی دفاتر کو استعمال شدہ بجلی سے بھی زیادہ یونٹوں کے بل بھجوائے جانے کے بارے میں حکومتی رپورٹ کے حوالے سے تھی رپورٹ میں میپکو حکام نے اعتراف کیا ہوا ہے کہ ہم زیادہ بل بھیجتے رہے ہیں اسی رپورٹ کےساتھ سینیٹر میاں عتیق نے ملک کی دوسری الیکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (DISCO) کے بارے میں بھی سنسنی خیز انکشافات کئے تو چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے حکومتی ارکان سے دریافت کیا کہ کیا وہ اس تحریک التواء کی مخالفت کرتے ہیں جواب میں کچھ بھی نہ ملا کیونکہ ایوان میں اس وقت وزیر پانی وبجلی اور کوئی دوسرے وزیر موجود نہ تھے حتیٰ کہ قائد ایوان راجہ ظفر الحق بھی اس موقعہ پر موجود نہ تھے اس سے پہلے کہ چیئرمین سینٹ اس صورتحال پر برہم ہوتے محرک سینیٹر میاں عتیق نے ایوان میں موجود سینیٹرز پر واضح کیا کہ ہم اتنی محنت کرکے عوام کے مسائل ایوان بالا میں لاتے ہیں اور اگر حکومت کی یہی سرد مہری کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو ہم دل برداشتہ ہو جائیں گے اس پر انہوں نے تمام اپوزیشن ارکان کو واک آئوٹ کرنے کی درخواست کی جس پر پی پی پی، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، بی این پی، فاٹا حتیٰ کہ نون لیگ کے دو سینیٹر بھی واک آئوٹ میں شامل ہوگئے اس واک آئوٹ کے بعد چیئرمین سینٹ نے آئین و قانون کے حوالے دیتے ہوئے اور اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے سینٹ کے 261ویں اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لئے برخاست کردیا ملک کی پارلیمانی تاریخ میں سینٹ قومی اسمبلی کے اجلاس چیئرمین اسپیکر پر وروگ(PROROGUE) تو کرتے ہیں مگر (SANADAI) ایوان کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیا اس طرح سینٹ کا 261واں اجلاس چیئرمین سینٹ کسی بھی دن از خود بلا سکتے ہیں۔ سینیٹر میاں عتیق سے جب جنگ نے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایاکہ حکومتی رویے کے باعث چیئرمین سینٹ 261 واں اجلاس مزید جاری رکھنے سے قاصر ہوئے تب انہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا جو درحقیقت ایوان میں وزراء کی عدم موجودگی عدم دلچسپی سوالات کے جامع جوابات کی عدم فراہمی جوابات نامکمل آنے کے خلاف ایک بہت بڑا احتجاج ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو چاہئے کہ وہ وزراء کو سینٹ کی کارروائی میں زیادہ سے زیادہ حاضر رہنے اور دلچسپی لینے کی تنبیہ کریں اور چیئرمین سینٹ کو خو د یقین دلائیں کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال وہ پیدا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ ملک میں پہلے ہی بہت سی مشکلات و مسائل حکومت کے سامنے ہیں۔