مردان(نمائندہ جنگ/نیوز ڈیسک) مردان میں توہین مذہب کے الزام میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں نوجوان طالب علم کے قتل پر کراچی، سکھر سمیت ملک بھر میں احتجاج کیا گیا،جبکہ واقعے کے 2الگ الگ مقدمات ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کرلئے گئے ہیں قتل کے مقدمے میں ایک تحصیل کونسلر سمیت یونیورسٹی کے 7ملازمین بھی شامل ہیں نامزد20 ملزمان میں سے 8کو گرفتار کرلیاگیا ہے، پا کستا ن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔سابق صدر آصف زرداری اور شہید بے نظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے کہا ہے کہ توقع ہے ملزمان سے قاتلوں جیسا سلوک ہوگا۔عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ملک میں جنگل کا قانون نہیں چل سکتا، مردان واقعے پر آئی جی خیبر پختونخوا کے ساتھ رابطے میں ہوں ۔ اپنے ٹویٹ پیغام میں بختاور بھٹو نےمردان واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو کسی کی جان لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔کسی کی جان لینا ہر مذہب میں قابل مذمت ہے۔وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہاہے کہ جوڈیشل انکوائری کا حکم دیدیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون ایم پی اے نگہت اورکزئی نے کے پی کے اسمبلی کے اجلاس میں کہا ہے کہ طالب علم کے حوالے سے توہین رسالتؐ کے کوئی ثبوت نہیں تھے،لاہور کی یونیورسٹی سے شروع ہونے والا تنازع مردان یونیورسٹی پہنچ گیا ہے،پولیس کی موجودگی میں جس طرح مشتعل افراد نے برہنہ کرکے طالب علم کو پتھر مارےاس سے ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔خیبر پختو نخوا اسمبلی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کہاکہ واقعہ کی ابتدائی تفتیش میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے کہ طالب علم نے شان رسالتؐ یا شعائر اسلام کی توہین کی تھی بلکہ یہ ذاتی عناد کا شاخسانہ ہوسکتا ہے، کسی کو بربریت اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ علاوہ ازیں میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعلی پرویز خٹک نے کہا کہ اب تک کی تحقیقات میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ مشعال نے دین کے خلاف بات کی ہو،مقتول بچے کے موبائل ریکارڈ سے بھی کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ملی۔ ہجوم کو اشتعال دلا کر حملہ کرایا گیا ہے، اگر نئی نسل جوش میں آکر قتل کرنے لگے تو ملک غلط سمت میں جائے گا،پھر تو کوئی بھی اٹھ کرکہے گا کہ فلاں نے یہ بات کہی اوراسے جاکر قتل کردو،واقعہ بربریت ہے،ایسی کارروائی کریں گے کہ لوگ آئندہ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے ڈریں گے۔قبل ازیں واقعہ کیخلاف سکھر سمیت ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ عبدالولی خان یونیورسٹی ملازمین نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کیلئے احتجاجی ریلی نکالی واقعہ دوسرے روز بھی شہر میں موضوع بحث رہا ، سیکورٹی کی غیر معمولی صورتحال رہی،یونیورسٹی کے تمام کیمپیسزمیں تعلیمی سرگرمیاں معطل رہیں تاہم دفاتر کھلے رہے پولیس نے ہلاک ہونے والے طالب علم کا سامان قبضے میں لے کر تفتیش کا باقاعدہ آغاز کرلیا۔ گزشتہ روزمبینہ طورپر گستاخانہ گفتگو پر طلباء کے درمیان تصادم کے واقعے میں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کی ہلاکت کے واقعے کا مقدمہ تھانہ شیخ ملتون کے ایس ایچ او سلیم خان کی مدعیت میں درج کرلیاگیااس مقدمے کا ایف آئی آر نمبر233ہے اوراس میں دہشت گردی کے دفعات سمیت دیگر سات دفعات 02/148/149/7ATA/297/109/427بھی شامل ہیں اوراس میں 20ملزمان کو نامزد کردیاہے مبینہ ملزمان میں تحصیل کونسلر عارف خان اور یونیورسٹی کے سات ملازمین اجمل مایار ،افسر آفریدی ،نواب علی ،علی خان ،حنیف ،افسر خان ،سجاد ،سمیت دیگر ملزمان وجاہت ،علی حسن ،عمران ،شعیب ،انس ،نصراللہ ،فرمان ،عمار ،عباس خان ،سنی ،سہراب ،عارف خان بھی شامل ہیں پولیس نے توڑ پھوڑ اورہنگامہ آرائی کا دوسر ا مقدمہ بھی درج کرلیا ہے قتل کے مقدمے میں 20 نامزد ملزمان میں سے 8ملزمان کو گرفتار کر لیاگیاہے۔مزید ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس کی تین ٹیمیں تشکیل دیں گئی پولیس نے مشال خان کے کمرے سے ان کے زیر استعمال سامان کو قبضے میں لے کر ان کا جائزہ لینا شروع کردیاہے ادھر یونیورسٹی ملازمین نے اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لئے مظاہرہ کیا درجنوں ملازمین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ ز اٹھار رکھے تھے جن پر گرفتار طلباء کی رہائی کے نعرے درج تھے۔