• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تقریباً پونےدو ماہ ہوئے ہیں پانامہ کیس کا انتظار جاری ہے۔پوری قوم ہر ہفتے کے آغاز پرسپریم کورٹ کی کالز لسٹ دیکھتی ہے مگر اسے پانامہ کا نام فہرست میں نہیں دکھائی دیتا ۔انتظار کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کے ترجمان نے بھی اظہار کیا ہے کہ پوری قوم کی طرح فوج بھی فیصلے کی منتظر ہے ۔ترجمان نے فیصلہ کے میرٹ کے متعلق بھی کچھ باتیں کی تھیں۔بات تو سچ ہے واقعی پوری قوم انتظار میں ہے۔جب میں پاکستان سے باہر تھاتو جس پاکستانی سے ملاقات ہوتی تھی وہ پانامہ سے متعلق پوچھتا تھا اب جب سے وطنِ عزیز میں آیا ہوں ہر محفل میں موضوع گفتگو پانامہ کیس ہوتا ہے ۔ہر شخص اپنی خواہشات کے مطابق کہانی سناتا ہے ۔کچھ کہانیاں تو اتنی لذید ہوتی ہیں کہ منہ میں پانی بھر آتا ہے اور بعض لوگ تو یوں کہانی سناتے ہیں جیسے ابھی ابھی خود فیصلہ لکھ کر آرہے ہوں ۔کہانیاں تراشنے والے جج صاحبان کے رشتہ داروں کو بھی معاف نہیں کرتے انہیں بھی کہانی کا کردارہی بنا دیتے ہیں ۔محفلوں سے تنگ آ کر جب کبھی میں ٹیلی وژن آن کروں تووہاں بھی ہر پروگرام کی تصویری جھلکیاں پانامہ پر مشتمل ہوتی ہیں ۔رات گئے جب سوشل میڈیا کی گلی میں جا نکلتا ہوں تو ایسے ایسے دلچسپ مکالموں سے واسطہ پڑتا ہے کہ قہقہے رکتے ہی نہیں ۔لطف کی بات ہے کہ زیادہ تر لطیفے وکلا نے ہی بھیج رکھے ہوتے ہیں ۔انہیں کبھی فرعونِ مصر کی محفوظ شدہ لاش یاد آجاتی ہے تو کبھی کولڈ اسٹوریج میں محفوظ شدہ آلو ٹماٹر یاد آجاتے ہیں ۔یہی کچھ اخبارات میں ہوتا ہے ۔مگریاد رہے کہ فصل پک چکی ہے اور پکی ہوئی فضل کواگر نہ کاٹا جائے تو شہر قحط کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یہ فصل رمضان کے مہینے سے پہلے پہلے کٹنی بڑی ضروری ہے تاکہ روزہ داروں کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔دیکھتے ہیں اس فصل کے ساتھ اور کیا کچھ کٹتا ہے ممکن ہے کچھ خود رو جڑی بوٹیاں بھی کٹ جائیں ۔ہمارا صدیوں پرانارواج ہے کہ ہم فصل کٹنے کا جشن بھی مناتے ہیں میلے ٹھیلے لگاتے ہیں ۔مثال کے طور پر بیساکھی کا میلہ وغیرہ ۔سوچتا ہوں کہ پانامہ کے فیصلے نے اگر واقعتاً فصل کاٹ دی تو کیا جشن ہوگا پھر سوچتا ہوں جشن تو ہو گا مگر رنگ میں بھنگ ڈالنے والے موجود ہونگے ۔میڈیا کے مختلف ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بھنگ کےلئے کروڑوں روپے تقسیم ہو چکے ہیں ۔اس تقسیم کا مقصد یقینا ً وہی ہے جو بھنگ پی لینے کے بعدسامنے آتا ہے ۔فیصلے کی تاخیر کی سب سے بڑی وجہ بھی شاید یہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان تاخیری ساعتوں میں بھنگ کا مکمل علاج تلاش کیا جارہا ہے تاکہ آئندہ نہ بھنگ ہو اور نہ بھنگ پینے اور نہ تقسیم کرنے والے ہوں ۔
میں بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح سوچتا ہوں کہ چمن میں بہار آنے والی ہے ۔ بے شک اسے کسی نے رستے میں روک رکھا ہے لیکن سورج کی زرتار شعاعوں کو اندھیرے زیادہ دیر نہیں روک سکتے ۔بہاروں کا راستہ خزاں گزیدہ ہوائیں نہیں کاٹ سکتیں ۔ موسم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اِس بہار سے پہلے لال آندھی بھی چل سکتی ہے ۔یہ آندھی پاکستان لوٹنے والوں کے خلاف ہوگی ۔اگر چہ پانامہ کا فیصلہ تاخیر سے آرہا ہے تو کچھ باعثِ تاخیر بھی ہے۔ خبروں سے کچھ کچھ اندازہ ہورہا ہے کہ صفائی کے لئے خاکروب نکلنے والے ہیں ۔ صفائی ہو گی تو پھول اچھے لگیں گے ۔ پھول کھلیں گے تو پرندوں کی چہچہاہٹ لوٹ کر آئے گی ۔سنا ہے اب چمن میں تتلیاں رقص کریں گی گلاب کھلیں گے بلبلیں گیت گائیں گی اور سانپ نہیں ہونگے ۔ سانپوں کا موسم جانے والا ہے۔ پھنکاریں بجھنے والی ہیں ۔
ویسے بھی جب فصلیں کٹ جاتی ہیں تو زہریلے حشرات کی مردہ لاشیں دہقانوں کی لاٹھیوں سے لٹکنے لگتی ہیں۔ایسے حالات میں ان کےلئے اپنے آپ کو چھپانا ناممکن ہو جاتا ہے ۔ دہقان بلوں سے بھی سانپوں کونکال لاتے ہیں اس موسم کی آمد سے پہلے ہی کئی اعترافی بیان طوفان کی طرح کھڑکیاں بجانے لگ گئے ہیں ۔لیاری کے عزیر بلوچ نے جو کچھ کہا ہے وہ آصف علی زرداری ، ان کی بہن اور ان کے منہ بولے بھائی پر کئی سوالیہ نشان بنا گیا ہے۔کسی زمانے میں ایک اعترافی بیان وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی دیا تھا ۔بقول ان کے ہر فیصلہ صدیوں یاد رکھا جاتا ہے ۔ یقیناً ان کے اعترافی بیان پر آنے والا فیصلہ بھی صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
آنے والے موسم میں کیسی کیسی تند و تیز ہوائیں چلیں گی اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہےکہ خواجہ سعد رفیق نے بھی فرمادیا ہے کہ ہماری ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں ۔دوسری طرف پیپلز پارٹی اپنے اغوا شدہ ’’فنکاروں ‘‘کی یاد میں تڑپ رہی ہے ۔یاد سے یاد آیا کہ جب سے جیالوں نے برسیوں پر فن کا مظاہرہ شروع کیا ہے پیپلز پارٹی کے اپنے اندر ایک دھمال شروع ہوچکی ہے۔یہ بھی کیا موسم ہے کہ اے این پی والے شناختی کارڈوں کو روتے پھرتے ہیں ۔اسی موسم سے ڈر کر مولانا فضل الرحمن نے پاکستان میں جمعیت علمائے ہند قائم کر لی ہے ۔اور دوسال قبل ہی سوسالہ جشن منالیا ہے کہ پتہ نہیں ’’کل ہونہ ہو ‘‘معاملہ ابھی تو صرف کرپشن کے تذکروں تک محدود ہے آنے والے دنوں میں توقع ہے کہ ان محلات کی بھی سیر کرائی جائے گی جو کرپشن سے وجود میں آئے ہیں ۔ فی الحال پیپلز پارٹی تین غیر معروف افراد کے گم ہوجانے پر قومی اسمبلی واک سے آئوٹ کر چکی ہے آنے والے دنوں میں پتہ نہیں کون کون کس کس کو روئے گا ۔ کہاں کہاں بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھی جائیں ۔نجانے کس کس زبان میں احتجاج ہوگا ۔کتنے نام والے گم ہونگے اورکہاں کہاں واک آئوٹ ہوگا ۔ عین ممکن ہے کسی ایسی واک کا نظارہ ہمیں اڈیالہ میں یا کوٹ لکھ پت میں دکھائی دے ۔
بچھائی جانے والی بساط سے لگتا ہے کہ اس مرتبہ پرانی چالیں کام نہیں آئیں گی ۔مرے ہوئے پیادے دوبارہ زندہ نہیں ہونگے ۔ کوئی این آر او نہیں ہوگا ۔کوئی پلی بارگیننگ نہیں ہوگی ۔نئے موسم میں جب تازہ پھول کھل رہے ہونگے تو ہو سکتا ہے سلاخوں کے پیچھے سے کوئی کہہ رہا ہو ’’میں بڑا تھا مری مشکل بھی بڑی ہونی تھی ‘‘-
منصور آفاق کی معذرت
گزشتہ دنوں ’’رخت سفر میں ایک دعا‘‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی وزیر کے والد گرامی سے ایک واقعہ منسوب کیا تھا۔ مذکورہ واقعہ غلط، بے بنیاد ، اور غیرتصدیق شدہ ہے۔ میں اس بزرگ ہستی سے معذرت خواہ ہوں۔



.
تازہ ترین