• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یکم اپریل، جسے اپریل فول کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کے ایک دن بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ وادی کو بھارت سے ملانے والی سری نگر جموں ہائی وے پر ایک سرنگ کا افتتاح کرنے مقبوضہ کشمیر کے علاقے جموں گئے۔ یہ سرنگ نہ صرف پہاڑوں کے درمیان سانپ کی طرح بل کھانے والی سڑک کے فاصلے کو کم کر دے گی بلکہ سخت موسمی حالات سے بھی کچھ نجات دلا دے گی۔ موسمِ سرما اور برسات میں اکثر اس سڑک پر سفر ناممکن ہوتا ہے، جس سے انڈیا اور کشمیر کے درمیان زمینی رابطوں کی کمزوری عیاں ہو جاتی ہے۔
گزشتہ جولائی کو برہان وانی کی زیرِ حراست شہادت کے بعد وادی میں پھوٹ پڑنے والے احتجاجی مظاہروں پر بھارتی فورسز نے تشدد اور بربریت کی انتہا کر دی اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان حالات میں یہ مودی کا اہم دورہ تھا۔ یہ افتتاح حکمراں ہندو انتہا پسندوں کے ترقی کے تصور سے لگّا کھاتا ہے، کیونکہ ایسے منصوبے اُنہیں غیر ہندو اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں پر کئے جانیوالے بیہمانہ تشدد پر ترقی کی ملمع کاری کر کے بچ نکلنے کا آسان راستہ فراہم کرتے ہیں۔ پولیس، دیگر ریاستی اداروں اور ہندو انتہاپسند گروہوں کے تشدد کے نتیجے میں اس سال کے آغاز سے لے کر اب تک درجنوں بے گناہ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
پرانے وقتوں کی بالی وڈ فلموں کے غنڈوں کی نقل کرتے ہوئے مودی نے اپنی مخصوص کرخت اور دھمکی آمیز آواز میں پاکستان کو ’’اپنے داخلی معاملات میں مداخلت‘‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ اس دوران جھوٹی مردانگی کے اظہار کے طور پر اپنا بازو مسلسل لہراتے رہے اور یہ وہ انداز ہے جس نے اُنہیں ہندو انتہاپسندوں میں مقبول بنا رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں ریاستی تشدد کا جواز پیش کرتے ہوئے اُنھوں نے کشمیری نوجوانوں کو سنگین دھمکی دی کہ وہ ’’دہشت گردی یا سیاحت‘‘ میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر لیں۔ زیادہ تر بھارتیوں کیلئے مودی کا یہ خطاب اُن کی روایتی جملے بازی تھی، لیکن کشمیریوں کیلئے، جو بھارت کے دہرے جملوں کا قہر جھیل چکے ہیں، کیلئے یہ ایک اور سنگین دھمکی تھی۔ سری نگر کے ایک مقیم، محمد کامران ٹویٹ کرتے ہیں… ’’مودی کا جملہ ’’دہشت گردی یا سیاحت‘‘ ہمیں باور کراتا ہے کہ یا تو ہم غلامی قبول کرلیں ورنہ وہ ہمیں ہلاک کردینگے‘‘۔
جلد ہی اس دھمکی کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ گزشتہ اتوار، اور اگلے روز، سوموار کو سری نگر کے ایک پارلیمانی حلقے میں ہونے والے الیکشن کے موقع پر ایک درجن کشمیری نوجوانوں، جن میں زیادہ تر نو عمر لڑکے تھے، کو قتل کردیا گیا، جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد دو سو کے قریب تھی۔ ہلاک ہونے والوں کو جس طرح اندھا دھند مارا گیا تھا، وہ اس حقیقت کا اظہار تھا کہ کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اشتعال اور آزادی کے جذبے کو کچلنے کیلئے بھارت کے پاس طاقت کے وحشیانہ استعمال کے علاوہ کوئی حربہ باقی نہیں رہ گیا۔ اگرچہ کشمیریوں پر وسیع پیمانے پر کیا گیا ریاستی تشدد کوئی نئی بات نہیں لیکن پولنگ والے دن کئے گئے تشدد کی نظیر نہیں ملتی۔ قابض بھارتی حکام کیلئے اس پر عوامی ردِعمل اور بھی حیران کن تھا۔ ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور برستی ہوئی بھارتی گولیوں سے خوفزدہ ہونے سے انکار کر دیا اور اپنا غصہ ریکارڈ کرانے کیلئے پولنگ اسٹیشنز کی طرف مارچ شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ووٹ ڈالنے کی شرح سات فیصد سے بھی کم رہی، اور یہ قابض علاقوں میں ہونے والے انتخابات کی تاریخ کی کم ترین شرح تھی۔ یہ بائیکاٹ اتنا شدید تھا کہ بھارتی حکام کو اننت ناگ کے حلقے میں پولنگ کو منسوخ کرکے وزیرِاعلیٰ محبوبہ مفتی کو سکون کا سانس لینے کا موقع دینا پڑا۔ روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں کا خون بہا کر مورثی سیاست کو فروغ دینے والی محبوبہ مفتی نے اس حلقے سے اپنے بھائی کو کھڑا کیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ قابض حکام نے 38پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا، جن کا انعقاد گزشتہ جمعرات کو ہوا۔ یہ بھارتی حکام کی عوام کو زبردستی جھوٹے انتخابی عمل میں شریک کرکے اعداد و شمار کی کچھ ساکھ بحال کر کے الیکشن کا بھرم رکھنے کی کوشش تھی۔ 38پولنگ اسٹیشنز پر چار ہزار سے زائد فوجی اہلکار تعینات تھے۔ اوسطاً ہر اسٹیشن پر تین سو فوجیوں کی موجودگی نے ان مقامات کو ایک طرح کی چھوٹی چھوٹی چھائونیوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ ہزاروں فوجی دستوں، بکتر بند گاڑیاں اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعے علاقے کی تمام سڑکوں اور گلیوں کی ناکہ بندی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود لوگ انتخابی عمل سے دور رہے اور رجسٹرڈ ووٹوں کے دو فیصد سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے۔ اس نے ایک بار پھر انتخابی عمل پر عوام کے عدم اعتماد کو ظاہر کر دیا۔
کشمیریوں کو دبانے یا رام کرنے میں ناکامی پر بھارت کی سیاسی اور فوجی قیادت کی طرف سے کشمیریوں اور پاکستان کو دھمکیاں دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مودی کی دھمکی، کہ ’’اطاعت کرو، ورنہ مٹا دئیے جائو گے‘‘ کے ایک ہفتے بعد وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ نے کمزور سے دکھائی دینے والے بھارتی آرمی چیف، بیپن روات کی دھمکی کو نئی زبان دی۔ بھارتی آرمی چیف نے خبردار کیا تھا کہ ’’کشمیر میں فرائض سر انجام دینے والی سیکورٹی فورسز کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرنے والوں‘‘ کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ اس دھمکی کے اعادے کو کافی نہ سمجھتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے ایک خطرناک وارننگ دی کہ ’’جو بھی کرنا پڑے، ایک سال کے اندر اندر کشمیر کو تبدیل کر دیا جائے گا‘‘۔ میں سمجھتا ہوں کہ راج ناتھ داعش کی طرز کی وسیع پیمانے پر ہلاکتوں اور کشمیر کو آبادی سے خالی کرانے کی دھمکی دے رہے تھے۔ گزشتہ سال اگست میں جب ریاستی دہشت گردی اور ہلاکتیں عوامی مزاحمت کو دبانے میں ناکام رہیں تو راج ناتھ نے یہ الزام لگا کر کہ پاکستان ’’دہشت گردوں کی پشت پناہی کر کے بھارت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اسے دس ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس کے فوراً بعد بھارتی فورسز ’’آپریشن توڑ پھوڑ‘‘ شروع کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر گھروں کو تباہ اور فصلوں کوجلانے لگیں۔تمام تر ہلاکت خیز اور فوجی حربے اپنانے کے باوجود بھارتی قابض فورسز کو ایک نئی صورتحال کا سامنا ہے۔ جس دوران بھارتی سیاسی اشرافیہ اور کشمیری پراکسیز کے ترکش میں جبر اور مزید جبر کے سوا کوئی تیر باقی نہیں رہا، کشمیریوں کی نئی نسل نے غلامی کے طوق کو اتار پھینکتے ہوئے قابض فورسز کے قدموں تلے سے زمین نکال دی ہے۔ سید علی گیلانی کے علاوہ پرانی نسل کے دیگر حریت پسند رہنمائوں کی کمزوری رہی ہے کہ وہ کسی امید یا نتیجہ خیز امکان کے بغیر ہی بھارتی سیکورٹی اور سیاسی حکام کے ساتھ رابطہ کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ تاہم نئی نسل نے اس بے بنیاد رجائیت پسندی کو جھٹک دیا ہے۔ اُنہیں انڈیا کا صرف ایک روپ ہی دکھائی دیتا ہے، جوکہ ریاستی دہشت گردی، جبر اور خوف کی فضا میں پروان چڑھا ہے۔ چنانچہ وہ نہ تو لفاظی سے مرعوب ہو سکتے ہیں اور نہ ہی جبر سے مغلوب، اورگزشتہ 70برسوں سے بھارت یہ دونوں کام کرکے دیکھ چکا ہے۔ ہندوتوا حکومت کی پریشانی میں یہ دیکھ کر اضافہ ہوچکا ہے کہ ایک طرف نوجوان نسل کے کشمیری مرنے یا زخمی ہونے سے نہیں ڈرتے تو دوسری طرف کوئی ترغیب، حقیقی یا التباسی، بھی اُن پرکارگر نہیں ہوتی۔



.
تازہ ترین