• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت پوری دنیا میں صرف39فیصد مائیں بچوں کو مدر فیڈکروارہی ہیں۔ عالمی ادارے کوشش کررہے ہیں کہ 2025تک یہ شرح 50فیصد تک ہوجائے، اگر مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں تو آٹھ لاکھ بچوں کو ہر سال موت سے بچایا جاسکتا ہے۔
امریکہ سے آئی ہوئی ڈاکٹر عائشہ نجیب نے پچھلے تین ماہ میں اپنے خرچ پر پنجاب کے کئی دیہات میں جاکر خواتین کو مدر فیڈاور کینگرو مدر کیئر پر لیکچرز دئیے۔ اسی طرح ڈاکٹر ناصر بریسٹ فیڈنگ پر کام کررہے ہیں۔ ایسے کئی دیہات ہوں گے جہاں راشدہ جیسی دوسری خواتین کو رات کے وقت مشکل پیش آتی ہو گی تو وہ لوگ کس اذیت میں ہوتے ہوں گے۔ان لوگوں کے لئے ان دیہات کے لئے کچھ سوچیں، بے شک وہاں کے بنیادی صحت مراکز ایک لائٹ ہائوس کی مانند ہیں مگر ان لائٹ ہائوسز کے لئے آپ کو بھی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی،اگر حکومت چاہتی ہے کہ آنے والی نسلیں لاغر اور کمزور پیدا نہ ہوں تو پھر لوگوں کو ماں کے دودھ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ مائوں کی صحت پر خصوصی توجہ دے۔ انہیں اچھی خوراک مہیاکی جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب لوگوں کے معاشی حالات اچھے ہوںگے۔ بھلا پانچ سو روپے دیہاڑی کمانے والا سات سو روپےکا ڈبہ والے دودھ ہر تیسرے دن خرید سکتا ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مائیں گندے ہاتھوں سے بوتل کا دودھ بناتی ہیں جس سے بچے بجائے صحت مند رہنے کے مزید بیمار ہوجاتے ہیں، انہیں اسہال اور نظام تنفس کی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔
دنیا بدل گئی، زمانہ بدل گیالیکن ہمارے دیہات اور قصبوں میں رہنے والوں کی سوچ نہ بدل سکی۔ حکومت نے اربوں روپے لگادئیے اسپتال بنادئیے، بنیادی صحت مراکز ، ڈی ایچ کیو اورٹی ایچ کیو بنانے کے باوجود آج بھی ان علاقوں میں روایتی سوچ نہ بدل سکی۔ یہ روایتی سوچ بھی نظام صحت کی ترقی میں ایک رکاوٹ ہے۔ ہمیں اس علاقے کی ایل ایچ وی روبینہ مشتاق نے بتایا کہ اس علاقے میں ایک عجیب روایت ہے، جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کو ماں کا دودھ پلایا جاتا ہے اور جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اسے گائے/بھینس کا دودھ پلایا جاتا ہے۔ ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ مائیں کمزور ہوتی ہیں لہٰذا یہ لڑکوں کو فیڈ نہ کرائیں کیونکہ لڑکے سے نسل چلنا ہوتی ہے۔
اللہ کے بندے یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ماں کمزور ہوگی تو کیا پیدا ہونے والی اولاد کمزور نہیں ہوگی؟ ۔ پھر ذرا دیکھیں کہ جہالت کی انتہا کیا ہے کہ لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اس کو چنگ چی رکشے یا موٹر سائیکل پر ماں بیٹی کو گھر لے جایا جاتا ہے اور لڑکا پیدا ہو تو اس کو کرائے کی گاڑی لے کر اس میں گھر لے جایا جاتا ہے۔ اس علاقے میں غربت گوڈے گوڈے ہے اور چھوٹے میاں صاحب 20ارب روپے کی لاگت سے گردوں اور جگر کا اسپتال بنارہے ہیںاور اس اسپتال کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جن کے بارے میں بے شمار تحفظات ہیں۔ فارم ہائوسز میں زندگی کے مزے لینے والو کبھی تم نے سوچا ہے کہ ایک دیہاڑی دار مزدور رات کو روٹی بھی کھاتا ہے یا بھوکا سوتا ہے؟ ٹی وی پر بڑے بڑے ٹاک شوز کرنے والو ذرا سوچو، آصف علی زرداری لاہور کو فتح کرنے کے بیانات تو آپ بہت دیتے ہیں پہلے تھرپارکر کے حالات تو درست کرلو۔ وہاں کی بھوک اور ننگ کو ختم نہ کرسکے فتح کرنا ہے تو اس ملک کی بھوک اور ننگ کو فتح کرو تاکہ لوگ تمہاری دل سے عزت کریں۔ ارباب اختیار ذرا سوچیں کہ ایک حاملہ عورت جس کے بچے کی ڈلیوری بالکل تیار ہو وہ موٹر سائیکل پر جارہی ہو اور پھر بنیادی صحت کے مرکز میں کسی بھی پیچیدہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے وہ آلات اور سہولتیں بھی نہ ہوں حتیٰ کہ الٹرا سائونڈ ا ور ایکسرے تک کی مشینیں بھی ندارد۔
ایک طرف غربت دوسری طرف جہالت،کیا خوبصورت امتزاج ہے؟ چند گھنٹے کے بچے کو ماں کا دودھ نہیں پلایا جارہا بلکہ پیر صاحب اپنے گندے ہاتھوں سے گھٹی دےرہے ہیں ۔ ارے بابا جن ممالک میں پیر نہیں ہوتے وہاں کیا بچے پیدا نہیں ہوتے اور کیا گھٹی دئیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے؟
پاکستان کے ایک گائوں فتح پور اوکاڑہ کا یہ مسئلہ اور حالات نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ہر دور دراز کے علاقے کے حالات فتح پور اوکاڑہ جیسے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر ہیں۔ یہ تو بھلا ہو خواجہ عمران نذیر وزیر صحت پرائمری ہیلتھ کا جنہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کا تہیہ کرلیا ہے۔ ہمیں تو پچھلے دنوں اس وقت پنجاب کے یہ وزیر صحت خواجہ عمران نذیر بہت بھلے انسان لگے جب وہ ایک معروف پروفیسرکے کلینک میں اپنی فیملی کو دکھانے کے لئے آئے۔بغیر کسی پروٹوکول اور ڈرائیور کے، خود گاڑی چلا کر آئے (کاش! ملک کے باقی وزیر بھی پروٹوکول کی جان چھوڑدیں) واپس موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جہالت کی انتہایہ دیکھیں کہ پہلے روز کے بچے کو بادام شہد اور دیسی گھی ملا کر کھلایا جارہا ہے اور اوپر سے پانی پلادیا جاتا ہے پھر کہتے ہیں کہ بچے کو نمونیہ ہوگیا۔
عزیز قارئین ان دیہات میں توہمات اور ایسے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ بیان سے باہر۔ مثلاً ماں کا دودھ، کیڑے مکوڑوں کے آگے ڈالا جاتا ہے اگر کیڑے مکوڑے یہ دودھ پی لیں تو پھر نوزائیدہ بچے کو دودھ پلایا جاتا ہے ورنہ ماں کو منع کردیا جاتا ہے یہ ہے دیسی لیبارٹری کیڑے مکوڑے دودھ پلانے کا فیصلہ دیتے ہیں۔ حکومت کے وہ وزراجن کا تعلق دیہاتی علاقوں سے ہے انہوں نے کبھی بھی ان جاہلانہ رسومات کو ختم کرنے کے لئے اپنے علاقوں میں آواز نہیں اٹھائی کیونکہ یہ وزرا چاہتے ہیں کہ یہ لوگ پیروں اور فقیروں اور فضول رسومات میں پڑے رہیں اور ان کی ان علاقوں میں بادشاہت قائم رہے۔ ہم اس علاقے کے کچھ لوگوں سے خود ملے ہیں یقین کریں ان کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ پنجاب جیسے ترقی یافتہ صوبے کا گائوں ہے۔ راوی دریا کے کنارے آباد چھوٹے چھوٹے کچے گھروں میں رہنے والے یہ لوگ زندگی کی ہر آسائش و آرام بلکہ ضروری چیزوں کے بغیربیٹھےہیں، پینے کے لئے صاف پانی نہیں۔ دریا کا پانی پیتے ہیں یا پھر زمین کا پانی یا پھر باہر کسی دور جگہ سے پانی لاتے ہیں۔ دریا اور زمین دونوںکا پانی اب کثافتوں سے بھر چکا ہے۔ اس علاقے میں ہیپاٹائٹس بی /سی بہت زیادہ ہے۔ ہر دس حاملہ خواتین میں سے پانچ /چھ خواتین کو ہیپاٹائٹس بی/ سی ہے۔ ہیموگلوبن6.7تک ہے حالانکہ عام طور پر خواتین کی ہیمو گلوبن10سے بارہ تک ہونی چاہئے۔ خون کا قطرہ تک ان کے جسموں میں نہیں۔ میاں شہباز شریف صاحب آپ نے ملتان میں کڈنی اسپتال کی ایک تقریب میں کہا کہ عوام کے علاج میں رکاوٹ برداشت نہیں کروں گا۔ مریضوں کی بددعائیں آسمان بھی چیر دیں گی، تو جناب والا آپ کا زور ا سپتال بنانے پر نہیں ہونا چاہئے اس وقت جو لوگ ناقص اور غذا کی کمی کا شکار ہے آپ کو ان کی صحت بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے، اگر آپ عوام کی مجموعی صحت بہتر کرلیں گے تو آپ کو کروڑوں اور اربوں روپے اسپتالوں کی تعمیر کے لئے نہیں درکار ہوں گےاگر حکومت صرف بریسٹ فیڈنگ پر ہی زور دینا شروع کردے تو یقین کریں دس برس کے اندر اندر عوام کی صحت کا معیار پہلے سے کئی گنا بہتر ہوجائے گا۔

.
تازہ ترین