چارسدہ (نمائندہ جنگ) چارسدہ میں سکول ٹیچر قصائی بن گیا ۔ سبق یاد نہ کرنے پرچوتھی جماعت کے طالبعلم کے کپڑے اتار کر اسے الٹا لٹکادیا اور تشدد کا نشانہ بنایا ۔ سبق یاد نہ کرنے پرشاہ فیصل نے ننھے عنایت اللہ کو پانی بھی ڈ بویا،طالبعلم کا جسم سن ہو گیا،ٹیچر اور ہیڈ نظریہ تعلیم اور ریاستی نظریہ ہے، لبرل اور مذہبی جماعتوں نے معاشرے کے سدھار کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کی ہیں، مشال خان قتل کیس کی تفتیش میں یونیورسٹی انتظامیہ اور اساتذہ سمیت سب کو شامل کرنا چاہئے، مشال خان کیس کی کرمنل انویسٹی گیشن ہوتی نظر نہیں آرہی ہے، ایک قتل ہوا لیکن ہتھیار کا کچھ پتا نہیں ہے، مشال قتل کیس خیبرپختونخوا پولیس کی آزاد تحقیقات کا بہت بڑا امتحان ہے۔ان خیالات کا اظہار مظہر عباس، حسن نثار، بابر ستار، شہزاد چوہدری، ماروی سرمد اور امتیاز عالم نے جیو نیوز کے پروگرام ”رپورٹ کارڈ“ میں میزبان عائشہ بخش سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان کے پہلے سوال پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑھتی انتہاپسندی، قصوروار کون ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے حسن نثار نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی انتہاپسندی کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے ،ضیاء الحق ہمیں ایک ایسے منہ زور گھوڑے پر بٹھاگیا ہے جس کی لگامیں ٹوٹی ہوئی ہیں، انتہاپسندی سے نمٹنے کیلئے جس جرأت مندانہ قیادت کی ضرورت ہے وہ دور تک نظر نہیں آتی ہے، ہمارے لیڈرز جھوٹے اور سطحی قسم کے لوگ ہیں جنہیں اصل مسئلہ کا ادراک نہیں ہے، ہمارے معاشرے کو نہ دین کا فہم ہے نہ دنیا کا شعور ہے، ہمارا معاشرہ گلا سڑا ہے جس میں پڑھے لکھے لوگوں کے پاس بھی بنیادی معلومات اور فہم کا قحط ہے، یہاں سماج نام کی کوئی چیز موجود ہیں ہے، یہ ایک ایسا ہجوم ہے جس میں سانپ چھوڑ دیئے گئے ہیں، معاشرہ معاش سے ہوتا ہے وہاں اگر غیرمنصفانہ تقسیم اور عدم تحفظ ہوگا تو پھر کیا ہوگا، یہاں دو نمبر اتنی جڑ پکڑگیا ہے کہ ایک نمبر بات کرو تو کفر کا فتویٰ لگ جائے گا، اچھی خاصی تفاسیر میں رحمن اور رحیم کا ترجمہ ایک ہے حالانکہ ان دونوں صفات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ بابر ستار کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں بڑھتی انتہاپسندی کی وجہ ایک آئیڈیالوجی ہے جو پڑھے لکھے اور اَن پڑھ دونوں طرح کے لوگوں میں پروان چڑھی ہے، یہ آئیڈیالوجی تعلیمی اداروں اور مدرسوں میں بڑھتی جارہی ہے۔امتیاز عالم نے کہا کہ ملک میں بڑھتی انتہاپسندی کی وجہ نظام تعلیم ، نظریہ تعلیم اور ریاستی نظریہ ہے، ہمارا نظریہ علم قرونِ اولیٰ سے بھی پہلے کا لگتا ہے، اس میں عقل کی بالادستی، فکرکی، تصنیف کی، سوال کی، تحقیق کی اور جستجو کی گنجائش نہیں ہے، یونیورسٹیوں کے طلباء قومیت، ریاست، شہریت پر بنیادی سوالات کے جواب نہیں دے پاتے ہیں، ہمارے معاشرے میں جہالت کا بول بالا ہے اور اس کے ساتھ طاقت بھی آگئی ہے، مشعال کو مارنے والے لوگوں میں زیادہ لوگ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پاکستان تحریک انصاف کے لوگ تھے۔مظہر عباس کا کہنا تھا کہ معاشرے میں بڑھتی انتہاپسندی کی بڑی وجہ تعلیمی نظام کی کمزوری ہے، ریاست یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، پاکستان میں کئی طرح کے تعلیمی نظام بیک وقت چل رہے ہیں، ہماری حکمراں اشرافیہ عام آدمی سے بالکل لاتعلق ہوچکی ہے،ہماری لبرل اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے معاشرے کے سدھار کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کی ہیں، ہماری لبرل سیاسی جماعتوں میں کہیں لبرل ازم نظر نہیں آتا ہے جبکہ مذہبی جماعتوں میں فرقہ واریت کا عنصر نمایاں ہے۔ماروی سرمد نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بڑھتی انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ انہیں دی جانے والی تعلیم ہے، اس کے علاوہ ہماری آئیڈیالوجی میں بھی مسئلہ ہے، ہمارا نظام کسی بھی قسم کے تنوع کو فروغ نہیں دیتا بلکہ ختم کرتا ہے، مذہب کی بنیاد پر نیشنل ازم پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو آج کا جغرافیائی سرحدوں پر قائم نیشنل ازم اور پاکستانیت کہاں جائے گی، بچوں کے سوال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک روبوٹ کی طرح بن جاتے ہیں،اسی نظام تعلیم کے روبوٹس نے سوال کرنے والے طالب علم کو توہین کا مرتکب قرار دے کر ختم کردیا، ہم نے دینیات کے مضمون کو اسلامیات میں تبدیل کر کے تنوع کو ختم کردیا ہے۔