جنگل میں شیر بوڑھا ہو رہا تھا سوچا کیوں نہ جانے سے پہلے یہاں ایک جمہوری نظام رائج کردوں۔ سو ایک میٹنگ بلائی گئی اور ہر قسم کے جانوروں کو پیغام دیا گیا کہ ایک نمائندہ بھیج دیں۔ ایک خوبصورت کھیت کا انتخاب کیا گیا جو چاروں طرف سے پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔ میٹنگ صبح کے وقت طے ہوئی۔ ہر نوں کے نمائندے نے شیر کو پیغام بھیجا۔ جناب صبح صبح سب جانور بھوکے ہوتے ہیں، میٹنگ کے دوران یا بعد میں ہرنوں کے نمائندے کو شیر سے کون بچائے گا۔
بندروں کے ناظم نے اعتراض اٹھایا: کھیت میں کوئی درخت نہیں میں کیسے جان بچائوں گا۔
چیف ہاتھی نے کہا کہ میرے ساتھ پورا غول آئے گا کیونکہ اکیلے ہم ہاتھ نہیں مارتے۔
چیتوں کے ترجمان نے پیغام بھیجا ہمارا قائد علاج کرانے دوسرے جنگل گیا ہے اس میٹنگ کو آگے بڑھا دیا جائے۔
گدھوں نے کہا ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ ہماری نمائندگی کون کرے گا۔ زیبرے یا گدھے اس لئے انتظار فرمایئے۔
گھوڑوں نے سوال اٹھایا ہماری زیادہ تعداد شہروں میں رہتی ہے اس لئے ہم اس میٹنگ میں نہیں آسکتے۔
خرگوش کے گھر سے بیان جاری ہوا ہمارے کئی ساتھی کتوں اور بھیڑیوں نے ہلاک کر دیئے ہیں پہلے ان کا معاوضہ ادا کیا جائے۔
بن مانس نے کہا ہمارا فیصلہ ہماری سینٹرل کمیٹی میں ہوگا
چیف الو نے کہا اگر الو کے پٹھے کو نہیں بلایا گیا تو کوئی نہیں آئے گا اور دن میں تو ویسے ہی ہم سب سوتے ہیں۔
لومڑی نے اعتراض کیا: یہ اجلاس ہماری جنس کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔
عقاب نے کہا کہ باہر سے جائزہ لیتا رہوں گا کھیت میں نہیں آسکتا۔
ریچھ نے سوال اٹھایا اجلاس میں خوراک کا انتظام کون کرے گا یا مجھے دوران اجلاس کی بڑے ٹارگٹ پر ہاتھ مارنے کی اجازت ہوگی۔
گدھ نے کہا کہ میں اجلاس کے بعد آئوں گا تاکہ جو مردہ یا زندہ لاش موجود ہو ناشتے میں کھا سکوں۔ طوطا بولا میں صرف میاں مٹھو ہی بول سکتا ہوں کسی کو اعتراض تو نہیں چوری بھی تو کھانی ہے۔
بکریوں کی بڑی اماں نے پیغام بھیجا: بچیوں کی عزت کو خطرہ ہے۔
گائے نے کسی تبصرے سے انکار کر دیا۔
چمگادڑ نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔
شیر کو ان کی بیگم نے پوری صورتحال سے بریف کیا تو بوڑھا شیر بولا: میں تو ان سب کو اختیارات دینے کی بات کر رہا تھا یہ لوگ تیار ہی نہیں تو پھر میں اپنے ہی بڑے بیٹے کو جنگل کا اگلا شیر نامزد کرتا ہوں جب یہ پیغام پورے جنگل میںبھجوا دیا گیا تو سب کو آرام آگیا اور سب اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے اور جنگل میں امن و امان واپس آگیا۔
جئے جمہوریت۔