• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال پرانا ہے، دہرانے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ کے لئے زندگی میں کس چیز کی زیادہ اہمیت ہے؟ دولت، محبت، شہرت، عزت یا طاقت؟
کچھ سوچنے سے پہلے اس سوال کو اور وسیع کرتے ہیں تاکہ جواب تلاش کرنے میں مزید مشکل پیدا کی جاسکے۔ ترجیح کے اعتبار سے ان باتوں کی فہرست بنائیں جنہیں آپ زندگی میں اہم سمجھتے ہیں، مثلاً۔۔۔۔ سماجی رتبہ، غیرت، حمیّت، پبلک امیج، معاشرے پر اثر انداز ہونے کی طاقت، لوگوں کی زندگیاں تبدیل کرنے کی صلاحیت، مخلص دوستی، آگے بڑھنے کی بے پناہ خواہش، مقبولیت، معاشرتی مقام، اپنی پہچان، کیریئر کی کامیابی، کھوجنے کی لگن، باہمتی، مہم جُوئی، روحانیت، انسان دوستی، سچائی، دیانت داری، بھائی چارہ، اختیار، ساکھ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ ان باتوں میں سے کس کی اہمیت کم ہے اور کس کی زیادہ، لیکن لاشعوری طور پر ہمارے ذہن میں ایک فہرست ضرور تشکیل پا رہی ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے۔ محبت کا جذبہ جوش مار رہا ہو تو اس کے آگے قارون کا خزانہ بھی مٹی لگتا ہے اور اگر دولت کی تڑپ لاشعور میں سرفہرست ہو تو پھر محبوب کی تلاش بھی اُس کے اسٹیٹس کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ معاشرے میں اپنا امیج بنانے کے اگر آپ خواہش مند ہیں تو لامحالہ آپ کے قدم اسی ایک سمت میں اٹھیں گے اور اس ضمن میں ممکن ہے آپ کو دولت کی قربانی دینی پڑے، فلاحی کاموں میں حصہ لینا پڑے اور کچھ ایسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہونا پڑے جن کے بغیر آپ کا گزارا نہیں تھا۔ اگر آپ کے نزدیک مخلص دوستی کی قدر باقی تمام باتوں سے زیادہ ہے تو لامحالہ آپ کو دوستوں کے ساتھ جان مارنی پڑے گی، بیوی بچوں کے وقت میں سے وقت نکال کر دوستوں کو دینا ہوگا، ہر مرحلے پر ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا چاہے اس مرحلے پر وہ حق سچ کے ساتھ ہوں یا نہ ہوں، لاشعوری طور سچائی پھر اُس فہرست میں ذرا پیچھے دھکیل دی جائے گی۔ کاروباری انسان کے لئے ساکھ کی وہی اہمیت ہے جو کسی عورت کے لئے کنوار پن کی، ایک دفعہ چلی جائے تو پھر واپس نہیں آتی، ساکھ بنانے کے لئے پتا پانی کرنا پڑتا ہے، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کے لاشعور میں اس کا کتنا مقام ہے، ایسے دکاندار بھی دیکھے ہیں جو سو روپے کی چیز واپس نہیں کرتے اور اپنی کروڑوں کی ساکھ برباد کر بیٹھتے ہیں اور ایسی کمپنیاں بھی دنیا میں ہیں جو کسی معمولی نَقص کی وجہ سے اربوں روپے مالیت کی گاڑیاں مارکیٹ سے واپس منگوا لیتی ہیں، اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ شہرت بھی انسان کی کمزوری ہے، دولت کے ڈھیر لگے ہوں، خدا نے عزت دی ہو، طاقت بھی پاس ہو مگر شہرت نہ ہو تو لطف نہیں آتا، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا، سو بعض لوگ جب دولت، عزت اور طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو پھر شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں، اس وقت اُن کے لاشعور میں بنی فہرست ایک مرتبہ پھر تبدیل ہوتی ہے اور شہرت ٹاپ پر آ جاتی ہے، عزت کی پھر اتنی پروا نہیں کی جاتی، ایسے لوگ لاکھ کہتے رہیں کہ زندگی میں انہیں عزت سے زیادہ کچھ مقدم نہیں، پر بات نہیں بنتی۔ محبت کے دعوے کی جانچ تو سب سے دلچسپ ہے، ہر محبوب کا دعویٰ ہوتا ہے کہ اس کی محبت کی آگ کے سامنے دولت، شہرت، عزت ہیچ ہے مگر لاشعور میں بنی فہرست کچھ اور ہی اشارے دیتی ہے، کسی عاشق زار کے سامنے دس کروڑ ڈالر رکھیں اور کہیں کہ اٹھائو اور محبوب کو بھول کر باقی زندگی جنوبی افریقہ میں گزار دو تو شاید ہی کوئی مجنوں ہو جو انکار کرے، وہی انکار کرے گا جس کی حقیقی فہرست میں محبت اوّل نمبر پر ہو گی۔ روحانیت کا دعویٰ بھی محبت سے ملتا جلتا ہے، روحانیت کے قائل شخص کے نزدیک تو امارت، شہرت، نمود و نمائش اور خود نمائی کی کوئی گنجائش نہیں، اسے تو دنیا سے ماورا ہو کر اللہ سے لو لگانی چاہئے، درویش کا آستانہ کسی پینٹ ہائوس میں تو بہرحال نہیں ہوتا، لیکن اگر ایسا نظر آئے تو سمجھ جائیں کہ اصل میں اُس شخص کی ترجیح روحانیت نہیں بلکہ ناموری، سماجی رتبہ اور مقام حاصل کرنا اوراپنے درجات بلند کرنا ہے، روحانیت بھی شاید کہیں چوتھے پانچویں نمبر پر مل جائے۔
اصل میں انسان ایک متنوع زندگی کا خواہش مند ہوتا ہے جس میں ہر طرح کے رنگ ہوں، کبھی ایڈونچر ہو، کبھی رومانس، دولت بھی ہو اوراختیار بھی، اپنائیت بھی ہو اور اکیلا پن بھی، دوست بھی ہوں اورمحبوب بھی ہو(ں)، عزت بھی ہو، شہرت بھی ہو، نیک نامی بھی ہو، لوگ درویش بھی کہیں اور رعب و دبدبے سے بھی ڈریں، مخیر بھی کہیں اور رحم دل بھی، مقبولیت ایسی ہو کہ نکلنا مشکل ہو جائے مگر ذاتی زندگی پر حرف بھی نہ آئے۔ ۔۔۔۔ایسا مگر ممکن نہیں، انسان کی عملی زندگی اُس کی خواہشات کو بے نقاب کر دیتی ہے، شہرت کا چسکا سب سے برا ہے، مقبولیت پسندی کی لت جب کسی کو لگ جاتی ہے تو سب سے پہلا خون سچ کا ہوتا ہے، بدقسمتی سے یہ روش اب ہمارے معاشرے میں عام ہو چلی ہے، اس نشے کی عادت میں پہلے تو کروڑ پتی کاروبار ی مبتلا ہوئے، اس کے بعد ہمارے بعض دانشور اینکرز اس کا شکار ہوئے، نتیجہ اس چلن کا یہ نکلا کہ ہر وہ بات جو ٹی وی پر عوام میں گھٹیا سطح پر مقبولیت حاصل کر سکتی تھی اس کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا، انتہا پسندی کو شہہ ملنے لگی، مضحکہ خیز دانشوریاں ہوئیں، قومی مسائل کا حل تھڑے بازوں کے سے انداز میں پیش کیا جانے لگا، اور پھر میڈیا میں وہ سب کچھ ہوا جس پر اب ہم کئی برس سے ماتم کناں ہیں۔ بات اگر یہیں تک رہتی تو شاید کچھ گزارا ہو جاتا مگر اب مقبولیت پسندی کا یہ چلن معاشرے کے اس طبقے میں بھی سرایت کر چکا ہے جس طبقے کے لوگوں کی زندگی کی فہرست میں قانون کی بالادستی ٹاپ پر ہونی چاہئے تھی، بدقسمتی سے لاشعور میں ان کی فہرست میں شہرت کا چسکا ٹاپ پر ہے۔ اچھی بات مگر یہ ہے کہ ایسے لوگ اکثریت میں نہیں !



.
تازہ ترین